(ثبوت کی عدم موجودگی , عدم موجودگی کا ثبوت نہیں ہے)
یہ مشہور جملہ کارل سیگن سے موسوم کیا جاتا ہے گرچہ اس کا اولین سراغ 1888 میں ولیم رائٹ کے ایک مضمون میں ملتا ہے۔ بعد میں مشہور ماہر فلکیات مارٹن ریس اور کارل سیگن دونوں نے اس کو تھوڑی سی تبدیلی کے ساتھ اپنی تصنیفات میں استعمال کر کے شہرت دوام بخش دی۔
لطیفہ یہ ہے کہ کارل سیگن ایک سکہ بند دہریا تھا لیکن اس کے اس جملے کو اہل مذہب لے اڑے اور اب تک اسے وجود خدا پر ہونے والی بحث میں ایک دلیل کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔
سیگن کی مشہور کتاب The Demon Haunted World ہے۔ اردو میں اس کا ترجمہ غالباًُ “توہمات کی دنیا “ کے نام سے کیا گیا ہے۔ اس کتاب کے ایک باب میں کارل سیگن نے مشہور منطقی مغالطے “لاعلمی کی دہائی “ یا اپیل ٹو اگنورنس پر بات کی ہے۔ اس منطقی مغالطے کی رو سے جب کوئی یہ دلیل دیتا ہے کہ اس کا پیش کردہ نتیجہ محض اس لیے مان لیا جائے کہ اس کے خلاف کوئی شہادت میسر نہیں ہے تو یہ گویا جہالت یا لاعلمی کی دہائی دینے کے مترادف ہے۔ یہ مغالطہ بار ثبوت مدعی سے ہٹا کر سوال کرنے والے پر ڈال دیتا ہے اسی لیے اسے ایک fallacy کہا جاتا ہے کیونکہ بار ثبوت یا Burden of Proof ہمیشہ مدعی پر ہونا چاہیے۔
مثلا کہا جائے کہ ہم یہ تو جانتے ہیں کہ چاند پنیر کا بنا ہوا نہیں ہے لیکن ہم یہ قطعیت سے نہیں ثابت کر سکتے کہ اس کا مرکزہ یا core بھی پنیر سے بھرا ہوا نہیں ہے اس لیے یہ مان لینا چاہیے کہ چاند کا مرکزہ پنیر کا بنا ہوا ہے۔اگر تم اس کے خلاف ہو تو ثابت کرو کہ چاند کے مرکز میں پنیر موجود نہیں ہے۔
اوپر دی گئی مثال کئی لوگوں کو بہت مضحکہ خیز لگے گی لیکن کسی بھی مابعد الطبعیاتی وجود کے لیے کیا گیا ہر دعویٰ بعینیہ اسی قسم کا ہے۔
ہم مادی دنیا میں بھی اس منطقی مغالطے کی کئی مثالیں ڈھونڈ سکتے ہیں۔ ان میں ایک مشہور اوربھیانک بلکہ ہولناک مثال سابق امریکی سیکرٹری دفاع کا وہ بیان ہے جو انہون نے عراق پر حملے کے دفاع میں دیا۔ جب ساری دنیا ان سے پوچھ رہی تھی کہ عراق کے ان مبینہ جوہری ہتھیاروں کی موجودگی کا ثبوت کیا ہے جس کی آڑ لے کر عراق پر حملے کی منظوری دی گئی ہے تو موصوف نے فرمایا۔
“محض اس لیے کہ آپ کے پاس ثبوت نہیں ہے کہ کوئی شے (عراق کے جوہری ہتھیار) موجود نہیں ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں نکالا جا سکتا کہ آپ کے پاس ثبوت ہے کہ وہ شے موجود نہیں ہے”
بس یہ کافی سمجھا گیا۔ اس کے بعد عراق پر حملہ ہوا۔ لاکھوں جانیں گئیں اور بعد میں انکل سام کو یہ اعتراف کرنا پڑا کہ ان ہتھیاروں کا کبھی کوئی وجود نہیں تھا لیکن کیا منطقی مغالطے کی ٹیک لگا کر جو تباہی کا بازار گرم ہوا ، یہ اعتراف اس کی تلافی کر سکتا تھا۔
سیگن نے اپنی کتاب میں اسی منطقی مغالطے پر بحث کرتے ہوئے کہا کہ یہ دعویٰ کہ جو کچھ غلط ثابت نہیں ہوا، یقینا صحیح ہو گا۔ یا یہ جو کچھ اب تک صحیح ثابت نہیں ہو سکا، یقینا غلط ہو گا ، اپنی نوع میں ایک درست دعویٰ نہیں ہے۔ مثال کے طور پر ہم یہ کہیں کہ چونکہ اس بات کی کوئی ٹھوس شہادت میسر نہیں کہ اڑن طشتریاں زمین پر کبھی نہیں اتریں اس لیے اڑن طشتریاں ایک حقیقت ہیں اور کائنات میں ان کے بنانے والی ایک ذہین مخلوق وجود رکھتی ہے۔ یا پھر یہ کہ کائنات میں کھربوں اور دنیائیں موجود ہیں لیکن اب تک کسی ایک جگہ بھی کسی اور مخلوق کی کوئی اخلاقی منزلت طے شدہ نہیں اس لیے زمین اور نوع انسانی کائنات کا مرکز ہیں۔
کارل سیگن کے نزدیک یہ دونوں نتائج منطقی مغالطے ہیں ، مضحکہ خیز ہیں اور ہماری اس جلدبازی اور عجلت کا مظہر ہیں جو ابہام اور نامعلوم کے حوالے سے ہماری نفسیات کا حصہ ہیں۔ اس عجلت کا خلاصہ اسی جملے میں ممکن ہے کہ ثبوت کی عدم موجودگی، عدم موجودگی کا ثبوت نہیں ہے۔
سیگن کا مطمح نظر یہ ہے کہ کسی بھی شے پر اعتبار اور یقین ثبوت کی دستیابئ کا محتاج ہے ، عدم دستیابی کا نہیں۔ اب سوچئے کہ جب اس جملے کو اٹھا کر مابعد الطبعیاتی تصورات کی حقانیت پر اصرار کیا جاتا ہے تو اس جملے کے خالق کے نزدیک آپ اصل میں اپنی لاعلمی اور جہالت کی دہائ دے رہے ہیں۔ پھر بھی مذہبی حلقے مصر ہیں کہ یہ دلیل ان کے لیے بنی ہے۔ اس پر بندہ مسکرا ہی سکتا ہے۔
اس جملے کا مطلب یہ ہے کہ کوئی بھی نتیجہ اس وقت تک کامل نہیں ہے یا کوئی بھی مفروضہ اس وقت تک نظریہ یا قانون نہیں کہلا سکتا جب تک اس کی سائنسی تحقیق اطمینان بخش حد تک مکمل نہ ہو جائے۔ اگلا سوال یہ ہے کہ کوئی بھی تحقیق کب مکمل کہلائے گی تو اس کا جواب ہے کہ “کبھی نہیں”۔ پوپر کا نظریہ تغلیط ہمیں یہ بتاتا ہے کہ حقیقت وہی ہے جس کے غلط ہونے کا امکان موجود ہو۔ اس لیے ہر نئی شہادت ، ہر نیا تجربہ حقیقت کی ماہیت کو بدل سکتا ہے۔ لیکن ایسے تصورات جن کے غلط کرنے کو کوئی طریقہ میسر نہیں ، اس قابل نہیں کہ ان کو مانا جائے یا ان پر وقت ضائع کیا جائے۔ مذہب کی ڈومین کے تمام مابعد الطبعیاتی “وجود” اسی ذیل میں آتے ہیں۔
ابہام,تشکیک اور بے یقینی سائنس کی میراث ہے۔ اسی لیے سائنس کبھی یہ دعویٰ نہں کرتی کہ اسے سب کچھ پتہ ہے۔ اس کا علم حتمی ہے اور اس کے نظریے اٹل ہیں۔ یہی سائنس کا طرہ امتیاز ہے بمقابل ایسے فلسفے کے جس کے نزدیک ہر بات حتمی ہے۔ دنیا کی ترقی کا ہر قدم اسی لیے محض سائنس کی بدولت ہے ۔
اگر ہم یہ مان لیں کہ سچائی کبھی مکمل نہیں ہوتی تو پھر ہم کسی نظریے کو خواہ وہ سائنسی نظریہ ہی کیوں نہ ہو کیوں مانیں۔ اس کا جواب بہت سادہ ہے۔ ہم ہمیشہ ایک ایسے threshold کا تعین کرتے ہیں جب کسی تحقیق سے حاصل ہونے والے نتائج اس نہج تک پہنچ جائیں کہ اسے عملی مظہر میں ڈھالا جا سکے یا اس وقت تک موجود تمام اشکالات کے لیے شافی جواب بہم پہنچائے جا سکیں۔ ان میں سے کوئی بھی threshold مذہب کی اساس کے لیے ناممکن ہے اسی لیے مذہبی اساس میں تغیر کا فقدان ہے جو علم شعور اور آگہی کا لازمہ ہے۔
برٹرینڈ رسل نے اسی جہالت کی دہائی کے حوالے سے اپنی بات رکھتے ہوئے اس خلائی چائے دانی کی مثال سامنے رکھی جس کی نفی کرنا ناممکن ہے۔ رسل کا کہنا تھا کہ اس کی نفی ممکن نہ ہونے کےباوجود کسی کو بھی اس دعوے پر یقین نہیں کرنا چاہیے کہ ایک ننھی سی چائے دانی زمین اور مریخ کے بیچوں بیچ سورج کے گرد چکر لگا رہی ہے۔ ایسی ہی مثالیں نہ نظر آنے والے اژدہے اور یونی کارن کی بھی ہیں۔ سوچیے تو سارے خیالی وجود اسی ذیل میں آتے ہیں خواہ یقین دلانے کے لیے کتنے ہی پاپڑ بیلے جائیں اور یہ بھی یاد رہے کہ جہالت کی دہائی دینے سے بار ثبوت آپ کے سر سے نہیں ہٹتا خواہ اس دہائی کو کیسے ہی فلسفیانہ لبادے پہنا دیے جائیں۔۔۔