اسلام آباد میں ٹک ٹاکر لڑکی کے قتل کا دلخراش واقعہ ہماری معاشرتی زوال پذیری کا منہ بولتا ثبوت ہے، اس دلخراش واقعے نے پورے معاشرے کو لرزا کر رکھ دیا، مگر سوال یہ ہے کہ ہم کب جاگیں گے؟ ہم کب ان نام نہاد آزادیوں کا احتساب کریں گے جن کے پردے میں ہماری قوم کی بیٹیاں عزت، کردار اور یہاں تک کہ جان سے بھی ہاتھ دھو بیٹھتی ہیں؟ افسوس کے ساتھ ” ہمارا جسم ہماری مرضی ” کے سلوگن کے نیچے وہ شاہراہ تعمیر کی گئی ہے جو مقتل کو جاتی ہے ،ایسا راستہ جس پر کانٹے چن دیئے گئے ،بظاہر خوشنما نعرے کی آڑ میں مغرب نواز این جی اوز کی پروردہ چند "آنٹیوں ” نے بہلا پھسلا کر کتنے ہی گھرانوں کی لڑکیوں کو بارود کے ڈھیر پر لا کھڑا کر دیا ہے۔مگر افسوس انہیں کوئی پوچھنے والا نہیں۔
اسلام کے نام پر بننے والے ملک میں آج درسگاہوں اور تعلیمی اداروں کے حیا باختہ ماحول نے مغربی معاشرے کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے ۔ مخلوط میل جول، بے خوف و حیا انداز، اور فریڈم آف ایکسپریشن کے نام پر اخلاقیات کو دفن کر دیا گیا ہے۔اسلام آباد میں ہمارے پڑوس میں واقع ہاسٹل سٹی جہاں مختلف یونیورسٹیوں میں زیر تعلیم لڑکوں اور لڑکیوں کے ہاسٹلز ہیں وہاں جا کر لگتا ہی نہیں کہ یہ وطن عزیز پاکستان کا کوئی گوشہ ہے، ملک کی بڑی یونیورسٹیوں میں لڑکوں اور لڑکیوں کا بے روک ٹوک ساتھ بیٹھنا، کیمپس میں ویڈیوز بنانا، رات گئے دوستوں کے ساتھ ہنسی مذاق — یہ سب آج "نارمل” سمجھا جانے لگا ہے۔
یہی آزادی جب ماں باپ کی تربیت سے آزاد، اسلامی اقدار سے بے خبر، اور نفس کی غلامی میں بدل جاتی ہے تو اس کا انجام کبھی کسی ہوٹل کے کمرے میں موت کی صورت میں، کبھی بلیک میلنگ اور خودکشی میں، اور کبھی خاندان کی عزت خاک میں ملنے پر ہوتا ہے۔
جو یونیورسٹیاں علم کا مینار ہونی چاہیے تھیں آج فیشن، ڈیٹنگ اور وی لاگ کلچر کا گڑھ بن چکی ہیں۔ جہاں کبھی ایجادات، ریسرچ، حدیث اور سائنس کا سنگم ہونا تھا، وہاں اب ٹک ٹاک اور انسٹاگرام کا راج ہے۔ گیٹ ٹوگیدر، کنسرٹس، ویلکم پارٹی، فئیر ویل، ویلنٹائن — کیا یہی تعلیم ہے؟ کیا یہی مقصد ہے ان دانشگاہوں کا ؟
یہ ماحول صرف کردار کشی نہیں کر رہا بلکہ جان لیوا بھی بن چکا ہے۔ لڑکیاں ان خود ساختہ تعلقات میں الجھ کر بسا اوقات ایسی الجھن کا شکار ہو جاتی ہیں جہاں سے واپسی صرف لاش کی صورت ممکن ہوتی ہے۔
کیا اب بھی وقت نہیں آیا کہ ہم مخلوط تعلیم کے نقصانات پر سنجیدگی سے غور کریں؟ہم اس مادر پدر آزادی سے جان چھڑائیں جو کئی بے گناہوں کی جانیں لے چکی ؟ کتنے ہی شریف گھرانوں کی عزتیں نیلام کر چکی ،ہماری معاشرتی اقدار و روایات کو خاک میں ملا دیا ،کیا ہمیں اسلامی اقدار پر مبنی ماحول نہیں چاہیے؟ کیا ہم اپنی بیٹیوں کو علم دینا چاہتے ہیں یا بے راہ روی کی نذر کرنا چاہتے ہیں؟
یاد رکھیے!
آزادی جب اخلاقیات سے آزاد ہو جائے تو وہ تباہی ہے، اور اسلام میں آزادی بے لگام نہیں بلکہ ہر آزادی کے ساتھ حد ہے، ذمہ داری ہے، وقار ہے۔
ٹک ٹاکر لڑکی کا قتل ایک فرد کا حادثہ نہیں، پورے معاشرے کے ضمیر کا جنازہ ہے۔معاشرتی بے راہ روی اور اخلاقی پستی کی جس شاہراہ پر ہم تیز رفتاری سے گامزن ہیں یہ واقعہ اس شاہراہ پر ایک سپیڈ بریکر بھی ہے ،کاش ہم اخلاق باختگی کی اس روش کو بریک لگا دیں شاید کہ اس خوفناک ایکسیڈنٹ سے محفوظ رہیں جو مسلسل کئی معصوم جانیں نگل رہا ہے ،اے کاش، اے کاش!
ہمیں چاہیے کہ اب ہم اپنے تعلیمی اداروں، خاص کر یونیورسٹیوں کے ماحول کا سختی سے جائزہ لیں، بے لگام میل جول پر پابندی لگائیں، اور اسلامی تربیت کو فروغ دیں۔ورنہ ہر آنے والا دن کسی اور ماں کی بیٹی کی لاش لا سکتا ہے…اور ہم صرف ٹی وی چینلز پر ہیڈ لائنز سنتے اور اخبارات میں سرخیاں پڑھتے رہ جائیں گے۔