جمعہ, نومبر 22, 2024

شبِ مـہندی، مرد کے ہاتـھ پر پتـہ رکھ کر مـہندی رکـھنے کی رسم

ہمارے معاشرے میں خصوصاً پاکستان میں شادی بیاہ میں کچھ ایسی رسومات آچکی ہیں جن کی اصل ہمیں معلوم ہی نہیں مگر ہم ان رسومات کو اپنے تہواروں کا حصہ سمجھ کر کرتے چلے جارہے ہیں، جن میں ایک ھے:

¤ مہندی کی رسم

رخصتی سے ایک دن قبل ایک تقریب منعقد کی جاتی ھے جس کا نام "مہندی کا دن” رکھا گیا ھے۔ دلہن کے ہاتھوں، بازوں وغیرہ پر مہندی سے نقوش بنائے جاتے ہیں اور پھر دلہن اور دلہا کو ساتھ بیٹھا دیا جاتا ھے، دلہے کے ہاتھ پر ایک پتہ رکھ دیا جاتا ھے جس پر ایک ایک کر کے رشتے دار آتے ہیں اور مہندی رکھتے جاتے ہیں اور دلہے کے سر میں "سرسوں کا تیل” لگاتے جاتے ہیں اور آدھی مٹھائی دلہن کو اور آدھی دلہے کو کھلا دی جاتی ھے۔
پھر اسی رات کو خواتین وغیرہ ڈھولکی درمیان میں رکھ کر ایک دائرہ بنا کر بیٹھ جاتی ہیں۔ اور ڈھولکی کی دُھن پر ناچ و گانا کیا جاتا ھے جس میں ساری ساری رات گزر جاتی ھے، بعض مرتبہ تو عین فجر سے پہلے ناچ گانے سے فراغت ہوتی ھے۔ اس سب کو پاکستان میں "مہندی کا دن/رسم” کہا جاتا ھے۔

 

یہ رسم غلط ھے

 

اَصل:-

یہ رسم ہم میں برِصغیر کے ہندوؤں اور سِکھوں سے آئی ھے۔ ان کی مہندی کی رسم بھی ایسی ہی ہوتی ھے جیسی اوپر بیان کی جا چکی ھے، مزید کچھ اور طریقے اور عقیدے درج ذیل ہیں:-

☆ عقیدہ اوّل:

ہندوانہ عقیدے کے مطابق ان کی دیوی "لکشمی” اور دیوتا "گنیش” کے ہاتھوں کی ہتھیلیوں پر مہندی سے ایک گول دائرہ اور اس کے گِرد نقطے بنائے جاتے ہیں۔ جو کہ ان کے دیوی اور دیوتا کی خوشی و خوشنودی کے لیے لگائی جاتی ھے۔ اسی عقیدے کی بنا پر مہندی کی رسم منعقد کی جاتی ھے جو کہ اس عقیدے کے مطابق ان کے دیوتاوں کی خوشنودی کا باعث بنے گی۔
(ملاحظہ ہو: ویواہا سمسکارا)

☆ عقیدہ دوم:

ہندو عقیدے کے مطابق مہندی کی رسم کرنا وہواہ (شادی) کا ایک لازمی جز ھے جو کہ اچھے شگون کی وجہ بنتی ھے۔ اگر مہندی کی رسم نا کی گئی تو شادی نامکمل ھے اور یہ بدشگونی کی علامت بن سکتی ھے۔
(ملاحظہ ہو: ویواہا سمسکارا)

☆ عقیدہ سوم:

مہندی کے دن دلہن کے ہاتھوں، بازوں اور پاؤں پر مہندی لگائی جاتی ھے اور ہندوؤں کا یہ عقیدہ ھے کہ اگر مہندی کا رنگ گہرا چڑھ گیا تو شادی کے بعد اس کی ساس اس سے بہت محبت کرنے والی ہوگی اور اگر رنگ پھیکا اور ہلکا چڑھا تو ساس سخت مزاج ہوگی۔
(ملاحظہ ہو: ویواہا سمسکارا)

☆ عقیدہ چہارم:

دلہن کو مہندی لگاتے وقت اس طرح سے کوئی خاکہ (ڈیزائن) بنایا جاتا ھے کہ اس میں دلہے کا نام بھی لکھا جاتا ھے جو کہ ڈھونڈنے سے ملتا ھے۔ پھر دلہے سے کہا جاتا ھے کہ وہ اپنا نام دلہن پر لگی مہندی کے خاکوں میں ڈھونڈے۔ تو ہندوانہ عقیدے کے مطابق اگر تو دلہے نے اپنا نام ڈھونڈ نکالا تو اس کا مطلب ھے کہ دلہا زیادہ محبت کرنے والا ہوگا اور اگر نا ڈھونڈ سکا تو عورت زیادہ محبت کرنے والی ہوگی۔ اور جب تک وہ نام نا ڈھونڈ لے یا ہار نا مان جائے تب تک مرد کو عورت کے پاس تنہا جانے کی اجازت نہیں ملتی۔
(ملاحظہ ہو: ویواہا سمسکارا)

☆ عقیدہ پنجم:

عورت کے ہاتھ پر رکھا مہندی کا پتہ آخر میں اگر کسی ایسی لڑکی کو مل گیا جو کہ کنواری ھے تو عقیدے کے مطابق اس لڑکی کی جلد شادی ہو جائے گی۔ ایسے ہی اگر مرد کے ہاتھ پر رکھا پتہ اگر کسی ایسے لڑکے کو ملا جو کنوارہ ھے تو جلد ہی اس کی شادی ہو گی۔
(ملاحظہ ہو: ویواہا سمسکارا)

⬤ حاصلِ کلام:-

شادی بیاہ کی رسم کوئی سماجی تقریب (سوسائٹی کا فنکشن) نہیں ھے یہ ایک اِسلامی تقریب ھے اور اسے اسلامی ہی رہنے دیں، کیونکہ اس کا درس ہمیں آپ ﷺ نے دیا ھے۔ نکاح کرنا سنت ھے ولیمہ دینا سنت ھے۔ یہ "مہندی کی رات” جیسی بے جا کی رسومات کا درس ہمیں دینِ اسلام نے نہیں دیا ھے۔ نا ہی تاریخ میں کسی معتبر شخص نے ان رسومات کو منایا۔ ہندوؤں کی رسومات کو اپنا کر اللّٰه ﷻ کی ناراضی مول لینا اور پھر شکوہ کرنا کہ ہماری نئی زندگی میں خوشحالی نہیں، سکون نہیں۔ یہ سراسر بیوقوفی ھے۔ خود بھی بچیں اور دوسروں کو بھی اخلاق سے ایسی ہندوانہ رسموت سے بچنے کی ہدایت کریں۔

متعلقہ خبریں

مقبول ترین

متعلقہ خبریں