بدھ, اکتوبر 16, 2024

چینی باشندوں کو کون نشانہ بنا رہا ہے؟

چین کی وزارت تجارت کے 2022 کے اعداد و شمارکے مطابق، تقریبا 568,000 چینی باشندے دنیا بھر میں چینی کمپنیوں کے زیرِانتظام منصوبوں پرکام کررہے ہیں۔ان میں سے زیادہ تر ایسے منصوبوں پر کام کر رہے ہیں جو چین کے وسیع بیلٹ اینڈ روڈ انیشئیٹو( بی آر آئی)کا حصہ ہیں۔اس پروگرام کے تحت سڑک اور ریل روابط، بندرگاہوں اور پاور پلانٹس جیسے منصوبوں پر ایک اندازے کے مطابق ایک ٹریلین ڈالر خرچ کیے گئے ہیں۔اس کا مقصد چین کی برآمدات کے لیے نئے راستے بنانا اور چین اور ان تمام ممالک کے درمیان تجارتی تعلقات کو گہرا کرنا ہے جنھوں نے اس منصوبے میں شراکت دار بننے کے لیے دستخط کیے ہیں۔

پاکستان بیلٹ اینڈ روڈ انیشیئٹو کے سب سے بڑے منصوبوں میں سے ایک یعنی چین پاکستان اقتصادی راہداری کا گھر ہے۔ اس منصوبے میں چین کی مغربی سرحد سے پاکستان کے راستے بحیرہ عرب پر واقع گوادر کی بندرگاہ تک متعدد سڑک اور ریل رابطے شامل ہیں۔پاکستان کی طرح افریقہ کے کئی ممالک جیسے کینیا، ایتھوپیا ، سینیگال،کانگو،نائیجریا نے بہتر ٹرانسپورٹ اور توانائی کے بنیادی ڈھانچے کی تعمیر کے لیے چین سے اربوں ڈالر کا قرضہ لیا ہے۔ان ممالک کے باشندے اکثر شکایت کرتے ہیں کہ ترقیاتی منصوبوں کو چلانے والی کمپنیاں انھیں بہت کم ملازمتیں فراہم کرتی ہیں اور زیادہ تر چینی شہریوں کو ہی ملازم رکھتی ہیں۔جس کی وجہ سے افریقی ممالک میں مقامی لوگ ناراض ہیں۔ کمپنیاں بہت سے چینی کارکنوں کو لاتی ہیں، اور یہ سوچ موجود ہے کہ وہ افریقی لوگوں کو صرف وہی ملازمتیں دیتی ہیں جہاں کام بہت ہی مشقت طلب اور سخت ہو۔

پاکستان کے مختلف خطوں میں جاری منصوبوں پر کام کرنے والے چینی شہری گزشتہ چند برسوں سے علیحدگی پسند اور شدت پسند تنظیموں کے نشانے پر ہیں۔پاکستان میں کام کرنے والے جن چینی شہریوں پر حملے ہوئے ہیں ان میں سے اکثر پاکستان اور چین کے مابین 62 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کے حامل بڑے تجارتی منصوبے چین پاکستان اقتصادی راہداری یا ‘سی پیک’ کے منصوبوں سے منسلک ہیں۔

چینی شہریوں پر تازہ ترین حملہ اتوار چھ اکتوبر کی شب کراچی ائیرپورٹ کے قریب ہوا ہے۔ چینی شہریوں کو جانے والے سیکیورٹی قافلے پر ہونے والے اس حملے میں دو چینی شہری ہلاک جبکہ 11 افراد زخمی ہوئے ہیں۔ جن چینی شہریوں کو نشانہ بنایا گیا وہ کراچی میں سی پیک کے ایک منصوبے پورٹ قاسم اتھارٹی الیکٹرک پاور کمپنی (پرائیویٹ)لمیٹڈ سے وابستہ تھے۔وفاقی وزیر خزانہ سینیٹر محمد اورنگزیب اور وزیر توانائی اویس لغاری نے انکشاف کیا ہے کہ کراچی میں دہشتگردی کا شکار ہونے والے چینی انجینئرز بجلی کی قیمتوں میں کمی پر مذاکرات میں شامل تھے۔

کراچی حملہ ایسے وقت میں ہوا جب اسلام آباد میں 14، 15 اور 16 اکتوبر کو شنگھائی تعاون تنظیم کا سربراہی اجلاس ہونے والا ہے۔بعض حکومتی اہلکار اور ماہرین بی ایل اے کے کراچی حملے کے ٹائمنگ کو دیکھتے ہوئے اسے آئندہ ہفتے پاکستان میں ہونے والے شنگھائی تعاون تنظیم کے سربراہی اجلاس کو سبوتاژ کرنے کی کوشش بھی قرار دے رہے ہیں۔

اس حملے کی ذمے داری کالعدم بلوچ علیحدگی پسند گروپ بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے)نے قبول کی ہے۔کراچی حملے سے متعلق بی ایل اے کے اعلامیے میں تنظیم میں نئی تشکیل کردہ انٹیلی جینس ونگ "زراب” کا باقاعدہ اعلان کرتے ہوئے اس کے کردار کو سراہا ہے۔انٹیلی جینس ونگ "زراب” Zephyr Intelligence Research & Analysis Bureau کا مخفف ہے۔ تنظیم کے مطابق زراب محققیں، مخبروںِ، آئی ٹی کے ماہرین، ڈیٹا انالسٹ اور تفیش کاروں پر مشتمل ہے۔ کالعدم بی ایل اے نے سی پیک منصوبے کو "بلوچوں کو مزید غلامی میں دھکیلنے اور ان کے قدرتی وسائل کو لوٹنے کی گھنانی سازش” قرار دیاہے۔

بی ایل اے کی جانب سے اتوار کی شب کیا جانے والا حملہ چینی باشندوں پرپہلاحملہ نہیں ہے۔ ملک میں چینی ترقیاتی منصوبوں سے منسلک 16 حملے ہوئے ہیں، جن کے نتیجے میں 20 کے قریب چینی شہری ہلاک اور متعدد زخمی ہوئے ہیں۔ان حملوں کی زیادہ تر ذمہ داری بلوچ شدت پسندوں کی جانب سے قبول کی گئی ہے ۔

کالعدم تنظیم بی ایل اے کے مطابق کراچی حملہ مجید بریگیڈ سے تعلق رکھنے والے شاہ فہد بلوچ عرف آفتاب نے کیا۔شاہ فہد بلوچ کا تعلق صوبہ بلوچستان کے افغانستان سے متصل سرحدی ضلع نوشکی سے قریب 150 کلومیٹر دور نواحی علاقے کلی سردار بادینی سے تھا۔ شاہ فہد نے انٹرمیڈیٹ تک تعلیم نوشکی شہر سے حاصل کی جس کے بعد وہ مزید پڑھنے کے لیے پنجاب کے شہر سرگودھا چلے گئے۔ پھر انھوں نے لسبیلہ یونیورسٹی آف میرین سائنسز میں بزنس ایڈمنسٹریشن کے شعبے میں داخلہ لیا۔ انھوں نے 2022 میں لسبیلہ یونیورسٹی سے بیچلز آف بزنس ایڈمنسٹریشن کی ڈگری حاصل کی۔28 سالہ شاہ فہد بلوچ نے 2019 میں بی ایل اے میں شمولیت اختیار کی تھی۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ متعدد کالعدم تنظیمیں دو دہائیوں سے پاکستان میں چینی شہریوں کو نشانہ بنارہی ہیں۔ تاہم 2013 سے ان حملوں میں جو اضافہ دیکھنے میں آیا ہے اور اس کا تعلق سی پیک سے ہے۔سی پیک کے اعلان سے نو سال قبل مئی 2004 میں چینی مفادات پر پہلا حملہ بلوچستان کے ساحلی شہر گوادر میں ہوا تھا۔ اس وقت گوادر بندرگاہ کی تعمیر کے لئے چینی ماہرین کو لے جانے والی گاڑی کو ایک بم دھماکے کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ اس حملے کی ذمے داری بھی بی ایل اے نے قبول کی تھی۔جولائی 2007 میں صوبہ خیبرپختونخوا کے ضلع چارسدہ میں کالعدم ٹی ٹی پی نے تین چینی انجینئروں کو ہلاک کیا تھا۔

اسلام اباد میں قائم سیکیورٹی تھنک ٹینک پاک انسٹیوٹ آف پیس اسٹیڈیز کے ا عداد و شمار کے مطابق 2017 سے چینی شہریوں اور سی پیک سے منسلک منصوبوں پر اب تک کل 16 حملے ہوئے ہیں جن میں 12 چینی شہری ہلاک اور 16 زخمی ہوچکے ہیں۔ان حملوں میں صوبہ سندھ میں آٹھ، بلوچستان میں چھ اور خیبر پختونخوا میں دو حملے کیے گئے۔
بی ایل اے نے 2018 سے مجید بریگیڈ کو چینی مفادات پر حملے کے لیے فعال کیاتھا جس کی وجہ سے ان کارروائیوں میں اضافہ ہوا ہے۔مجید بریگیڈ بی ایل اے کے فیلڈ کمانڈر اسلم بلوچ عرف اچھو کی جانب سے تشکیل دی گئی تھی۔ رسمی طورپر اس تنظیم کے قیام کا اعلان مارچ 2010 میں ہوا تھا۔البتہ مجید بریگیڈ کی پہلی کارروائی دسمبر 2011 کو کوئٹہ میں سامنے آئی تھی جب اس تنظیم نے سابق وفاقی وزیرنصیر مینگل کے صاحبزادے شفیق مینگل کے گھر دیسی ساختہ بم حملہ کیا تھا۔ اس واقعے کے بعد مجید بریگیڈ تقریبا سات سال تک غیر فعال رہی۔

سال 2017 میں پاکستان میں بی ایل اے کے کمانڈروں کی یورپ میں رہائش پزیر حیربیارمری سے اختلافات شروع ہوئے جو بعد میں شدت پسند گروہ کی تقسیم کا سبب بنے۔اس کے بعد اسلم اچھو نے مجید بریگیڈ کو دوبارہ فعال کرتے ہوئے اگست 2018 میں بلوچستان کے ضلع دالبندین میں چینی انجینئرز کی بس پر خودکش حملہ کیا۔اسلم اچھو نے مجید بریگیڈ کے اس حملے کے لیے اپنے بیٹے ریحان بلوچ کو استعمال کیا جبکہ حملے میں تین چینی انجینئرز اور پانچ دیگر زخمی ہوئے تھے۔یوں مجید بریگیڈ کا چینی مفادات کو نشانہ بنانے کاسلسلہ شروع ہوا جو ابھی تک جاری ہے۔

مجیدبریگیڈنے بلوچستان کے ساتھ ساتھ سندھ کے دارالحکومت کراچی میں متعددحملے کیے ہیں۔چینی مفادات اورشہریوں پر ہونے والے ان ہائی پروفائل حملوں میں اگست 2018 میں دالبندین میں چینی انجینئروں کے قافلے پرخودکش حملہ، نومبر 2018 میں کراچی میں چینی قونصل خانے پر حملہ، 2019 میں گوادر شہر میں پرل کانٹی نینٹل ہوٹل پر حملہ، جون 2020 میں کراچی میں پاکستان اسٹاک ایکس چنج پر حملہ شامل ہیں۔ کراچی اسٹاک ایکس چنج کے 40 فی صد ملکیتی شیئرز چینی کمپینوں کے ایک کنسورشیم کے پاس ہیں۔اسی طرح اگست 2021 میں گوادر میں ساحل سمندر پر سڑک کی تعمیر پر کام کرنے والے چینی انجینئرز کی گاڑی پر خودکش حملہ ہوا اور اپریل 2022 میں کراچی یونیورسٹی میں چینی زبان سکھانے والے سینٹر کے باہر ایک خاتون بمبار نے حملہ کیا۔

بی ایل اے کا حملہ 2017 سے اب تک کراچی میں چینی شہریوں پر آٹھواں حملہ ہے۔ان حملوں میں زیادہ تر بلوچ اور سندھی علیحدگی پسند جماعتوں کی جانب سے کیے گئے ہیں جن میں بی ایل اے کے ساتھ ساتھ سندھو دیش ریوولشنری آرمی ( ایس آر اے ) سرفہرست ہے جو جولائی 2020 میں پاکستان میں چین کے مفادات کو نشانہ بنانے کے لیے قائم کردہ اتحاد ‘براس’ نامی بلوچ علیحدگی پسند تنظیموں کے نیٹ ورک کا حصہ بھی ہے۔ کراچی میں چینی انجینئروں پر اتوار کی شب ہونے والا حملہ شہر میں 2005 سے لے اب تک کسی بھی بلوچ علیحدگی پسند گروہ کا 29 واں حملہ ہے۔

پاکستان کو پہلے ہی دہشت گردی کا سامنا ہے اور ایسے حالات میں حکومت کے لیے چینی شہریوں کی سیکورٹی ایک بڑا چیلنج بن کر ابھری ہے۔پاکستان میں ہزاروں کی تعداد میں چینی ماہرین اور کارکنان زیادہ تر بندرگاہ، کان کنی، معدنیات، توانائی، ٹیلی کمیونیکیشن اور تعمیراتی منصوبوں پر کام کر رہے ہیں۔ملک میں سی پیک کے ساتھ ساتھ نجی کاروبار سے وابستہ چینی باشندوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہورہا ہے۔ ۔جون 2022 میں ان ہی خدشات بنا پر چینی باشندوں اور منصوبوں کے تحفظ کے لیے چین نے حکومت پاکستان سے سی پیک پر کام کرنے والے اپنے شہریوں کے لیے ایک نجی چینی سیکیورٹی کمپنی بنانے کی درخواست کی تھی جسے پاکستان نے مسترد کردیا تھا۔

دوسری طرف بلوچ حقوق کے نام پرکام کرنے والے اورحق دوتحریک کے بانی مولاناہدایت الرحمن کوامریکہ اورعالمی طاقتیں پزیرائی نہیں بخشتیںمگر بلوچوں کے نام پردہشت گردوں اورشرپسندعناصرکی پشت پناہی کرنے والی ماہ رنگ بلوچ کوامریکہ اوردیگرعالمی طاقتیں بھرپورسپورٹ کررہی ہیں یہی وجہ ہے کہ رواں ہفتے ٹائم میگزین میں ماہ رنگ بلوچ کا نام دنیا بھر کی 100 بااثر خواتین کی فہرست میں شامل کیا گیا اوراس تقریب میں شرکت کے لیے وہ امریکہ جارہی تھیں کہ حکام نے مارہ رنگ بلوچ کواسی کراچی ائیرپورٹ پرروک دیاگیاجہاں ان کے لاپتہ بلوچوں نے چینی قافلے پرحملہ کیاہے ۔

متعلقہ خبریں

مقبول ترین

متعلقہ خبریں