لوگوں میں مشہور ھے کہ:
* مرد کی دائیں اور عورت کی بائیں آنکھ کا پھڑکنا اچھی خبر کا شگون ھے
* مرد کی بائیں اور عورت کی دائیں آنکھ کا پھڑکنا بری خبر ملنے کی علامت ھے
* دائیں ہو یا بائیں کسی نا کسی آنکھ کے بھڑکنے سے کوئی نا کوئی شگن لینا
•• اس عقیدے میں مزید اضافہ یہ کہ:
اگر مرد کے جسم کا دائیاں اور عورت کا بائیاں حصہ پھڑکے تو اچھی علامت ھے اور ایسے ہی اگر اس سے الٹ ہو تو بری علامت سمجھی جاتی ھے۔
یہ تمام "ایک غلط سوچ” ہیں
اَصل:-
یہ عقائد خالصتاً ہم میں برِصغیر کے ہندوؤں سے آئے ہیں۔ مسلمانوں نے ان عقائد کو ہندوؤں سے اپنایا ھے جو آج تک نسل در نسل چلتے آ رہے ہیں۔ ہندوؤں کے کچھ دھارمک عقائد درج ذیل ملاحظہ ہوں:
☆ عقیدہ اوّل:
ہندوؤں کی ایک کتاب دوہاوالی کی آخری نظم میں دعائی کلمات بیان کرتے ہوئے پادری نے اس عقیدے کا ذکر لکھا ھے کہ:-
معلوم ہوا ھے کہ گاوُری ( پروطی-ہندوؤں کی دیوی) مہربان تھی، سِیا (سیتا) کی خوشی ناممکن البيان تھی، ان سب کا منبع مبارک ھے۔ کیونکہ ان کے بائیں جسم کے حصے پھڑکنے لگ گئے تھے یا ان میں کھنچاؤ پیدا ہوتا تھا اور یہ اچھے وقت یا نیک شگون کی نقیب ھے۔
(ملاحظہ ہو: کتاب: دوہاوالی • بھجن: شری رام چندرہ کریپالو/شری رام ستوتی – از: گوسوامی تلسی داس)
☆ عقیدہ دوم:
دیوتا راما کی بیوی "سیتا” کے جسم کے بائیں حصوں کے بارے میں لکھا ھے کہ:
سیتا کی بائیں آنکھ پھڑکنے، بائیں بازو میں کھچاؤ اور بائیں ران کانپنے کا شگن یہ ھے کہ راما اس کے سامنے ہی ھے (آس پاس ہی ھے)۔
(ملاحظہ ہو: والمیکی رمائین – از: سندارا کندا – باب ۲۷، سطر ۴۸ اور ۵۰)
☆ عقیدہ سوم:
دیوتا رام کہتا ھے کہ:
میری آنکھ کا پھڑکنا اس بات کی پیشنگوئی ھے کہ میری چاہت پوری ہونے جا رہی ھے، یعنی مجھے فتح ملنے والی ھے۔
(ملاحظہ ہو: والمیکی رمائین از: یُدھا کندا | ۶،۴،۷)
☆ عقیدہ چہارم:
کمبھاکارنا کی بائیں آنکھ پھڑک رہی تھی اور بائیاں بازو میں تناؤ تھا کہ ایک گدھ اس کے سر پر آ گیا۔
(ملاحظہ ہو: والمیکی رمائین از: سندارا کندا | ۶،۶۵،۵۰)
☆ عقیدہ پنجم:
ویدیھاس کی بیٹی نے دیکھا کہ دیوتا راما کے جسم کا بائیاں حصہ پھڑک رہا تھا جو کہ اس وقت بہت اچھے شگن کی علامت تھا کہ رامانا پر شیطانی برائی ٹل چکی تھی۔
(ملاحظہ ہو: رام چارِتمانا چوپائی – از: سُندرا کندا | دوہا ۳۴)
☆ عقیدہ چہارم:
سیتا کی بائیں آنکھ اور بازو پھڑکنے لگا جو کہ اس بات کی نوید تھی کہ:
راگھوس کے راجہ کی مجھ سے ضرور ملاقات ہو گی۔
(ملاحظہ ہو: رام چارِتمانا چوپائی از: سندرا کندا | دوہا ۹۹)
حاصلِ کلام:-
ہندوؤں کے دھارمک عقائد سے یہ بات ثابت ہوتی ھے کہ مسلمانوں میں درج بالا عقائد ہندوؤں سے آئے ہیں۔ مسلمان اور ہندو کئی صدیوں سے ایک ساتھ رہے ہیں جس بنا پر مسلمانوں نے بہت سے ہندوانہ رسوم اور عقائد کو اپنا لیا ھے جسے آج تک اپنی زندگی کا حصہ بنا رکھا ھے اور ستم تو یہ کہ اب تو لوگ اسے دینِ اسلام کا حصہ سمجھنے لگ گئے ہیں۔ خدارا ایسی باتوں کی تاریخ جانیں اور اپنی زندگیوں سے اِن ہندوانہ عقائد کو نکالیں، جو آگے سے آگے اور بگڑتے جا رہے ہیں۔ پس آنکھ یا جسم کے کسی حصے وغیرہ کے پھڑکنے سے متعلق جتنے عقائد ہم میں مشہور ہیں وہ بالکل غلط ہیں اور ان کا دینِ اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔