ہفتہ, جولائی 27, 2024
ہومتازہ ترینعدالتوں کی کارکردگی پر سوالیہ نشان لگا ہوا ہے: جسٹس (ر)وجیہ

عدالتوں کی کارکردگی پر سوالیہ نشان لگا ہوا ہے: جسٹس (ر)وجیہ

کراچی ( ) سندھ ہائی کورٹ کے سابق چیف جسٹس وجیہ الدین نے کہا ہے کہ پاکستان میں اعلیٰ عدالتوں کی کارکردگی اکثر اوقات معیاری نہیں رہی، مگر کچھ عرصے سے قصہ ہی مختلف ہے۔مخترصاً 9 اپریل 2022ء اسلام آباد ہائی کورٹ و سپریم کورٹ، رات گئے اچانک کھل گئے۔ پھر چیف جسٹس بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ نے قومی اسمبلی کے ارکان کی وفاداریاں بدلنے کے معیوب عمل سے صرف نظر کرتے ہوئے، ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ کالعدم قرار دے کر وزیراعظم عمران خان کا اسمبلی تحلیل کے بعد الیکشن کا اعلان رد کیا اور قوم کی 16 ماہ سے بھی طویل معاشی و سیاسی کسمپرسی کا دروازہ کھول دیا۔

جسٹس (ر) وجیہ نے بتایا کہ اس ضمن میں کورٹ نے اپنی ہی اس نظیر کی تقلید سے گریز کیا جب چیف جسٹس محمد حلیم کی کورٹ نے جنرل ضیاالحق کی اسمبلی تحلیل اور وزیر اعظم جنیجو کی برخواسستگی کو غیر آئینی قرار دینے کے باوجود دخل اندازی سے اجتناب کیا تھا کیونکہ الیکشن کا اعلان ہوچکا تھا، جو بہتر عوامی و آئینی حل تھا۔

ماضی قریب میں جس طرح ایک متنازع مخلوط حکومت و نامکمل قومی اسمبلی نے سپریم کورٹ (پریکٹس و پروسیجر) ایکٹ متعارف کرایا اور ملکی تاریخ کی فقید المثال عدالتی تقسیم کے بعد وہ رد ہونے سے بچا، اسی وقت بدترین عدالتی بحرانوں کی نوید سنادی گئی تھی۔ فی الوقت 5 رکنی بنچ کے سویلینز کی ملٹری ٹرائلز کے رد کئے جانے کے خلاف اپیلیٹ بنچ کی تشکیل دلچسپ مرحلے سے دوچار ہے۔ سب سے پہلے تو جسٹس اعجاز الاحسن اپیلیٹ بنچ کی تشکیل سے بلاجواز الگ ہوگئے یا کر دیئے گئے۔

ان کا 5 رکنی بنچ میں فریق ہونا اس لئے غیر متعلق تھا کیونکہ اپیلیٹ بنچ کی تشکیل ایک انتظامی فریضہ تھا، جو 3 رکنی، نہ کہ تخفیف شدہ 2 رکنی کمیٹی ہی انجام دے سکتی تھی۔ اب نتائج دیکھئے کہ مجوزہ اپیلیٹ بنچ صرف 6 رکنی بنی جبکہ دیگر 6 جج بشمول چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ، جسٹسز منصور علی و اطہر من اللہ وغیرہ اس اہم ترین معاملہ سے لاتعلق رہیں گے۔

حالانکہ جسٹس طارق مسعود کی سربراہی وہاں مشکل بنتی تھی کیونکہ اس سے قبل کے 8 رکنی بنچ پر انہوں نے پٹیشنز کو ناقابل سنوائی قرار دیا تھا۔ اس صورتحال کا شاخسانہ یہ بھی ہے کہ بھٹو کیس صدارتی ریفرینس میں بنچ 9 رکنی ہوگا۔ جبکہ 8 جج صاحبان، بشمول سینئرو قابل ترین ججز، ریفرینس میں تماشائی کے کردار سے بھی محروم رہیں گے۔ کیا اب یہ صرف مقولہ رہ گیا ہے کہ انصاف نا صرف ہو بلکہ ہوتا نظر بھی آنا چاہیئے؟

متعلقہ خبریں

مقبول ترین

متعلقہ خبریں