Home بلاگ مفتی ندیم الواجدی صاحب کون؟

مفتی ندیم الواجدی صاحب کون؟

230

تحریر: ضیاء چترالی

الحاد کی بوسیدہ ہڈیاں ادھیڑنے والے مفتی یاسر ندیم الواجدی صاحب کا آج کل ہر سو چرچا ہے۔ حضرت 3 برس سے ہمارے رد الحاد گروپ کی سرپرستی فرما رہے ہیں۔ جب بحث طویل ہو تو انہی کا قول فیصل قرار پاتا ہے۔ چونکہ پاکستان میں بہت سے احباب ان سے ناواقف ہیں۔ اس لئے حضرت کا مختصر تعارف پیش خدمت ہے:
ڈاکٹر مفتی یاسر ندیم الواجدی دارالعلوم آن لائن کے بانی اور ڈائریکٹر ہیں۔ اصلاً دیوبند انڈیا کے ہیں اور آج کل مستقل طور پر امریکہ میں رہتے ہیں۔

معہد تعلیم الاسلام ایلجن شگاگو امریکہ کے استاذ حدیث ہیں، ساتھ ہی جامعہ الحسنین انڈیانا امریکہ کے استاذ فقہ وعقیدہ بھی ہیں۔ وہ ایک مصنف ومقرر ہیں اور دنیا بھر میں عموماً اور بھارت میں خصوصاً مسلم اقلیتوں کے حقوق کے لیے ایک مضبوط آواز ہیں۔ وہ اپنی نوعیت کے ایک منفرد آن لائن شو سرجیکل اسٹرائیک کے میزبان ہیں، اس کے علاوہ وہ ایک اسلامی تحقیقی جریدے ”اسلامک لٹریچر ریویو“ کے نائب چیئرمین بھی ہیں اور ماہانہ اردو رسالہ ”ترجمان دیوبند“ کے نائب مدیر بھی ہیں۔

پیدائش و خاندانی پس منظر:
مفتی یاسر ندیم الواجدی کی پیدائش سن 1982ء میں مشہور علمی سزمین دیوبند میں ہوئی، انہوں نے علماء سے بھرے پرے خاندان میں آنکھیں کھولیں، ان کے والد ماجد مولانا ندیم الواجدی صاحب مشہور صاحب قلم اور مصنف ہیں۔ آپ کے آباء واجداد شیر شاہ سوری کے عہد میں شیر کوٹ بجنور کے منصب قضاء پر فائز تھے، تقریباً ڈیڑھ صدی قبل یہ خاندان ہجرت کرکے دیوبند آبسا۔ آپ کے دادا حضرت مولانا واجد حسین صاحب رحمہ اللہ جامعہ تعلیم الدین ڈھابیل کے شیخ الحدیث رہے، جب کہ پردادا حضرت مولانا احمد حسن رحمہ اللہ مفتاح العلوم جلال آباد کے شیخ الحدیث رہے ہیں۔ آپ کا نانہیال دیوبند کے مشہور عثمانی خاندان سے تعلق رکھتا ہے۔ آپ کے نانا حضرت مولانا عبد اللہ سلیم امریکہ منتقل ہونے سے پہلے دارالعلوم دیوبند کے شیخ القراء رہے، امریکہ جاکر شکاگو میں معہد تعلیم الاسلام کے نام سے ایک اقامتی مدرسے کی بنیاد رکھی۔ یہ امریکہ کا پہلا مدرسہ ہے۔ آپ کے پرنانا صاحب کمالین وانوار القرآن حضرت مولانا محمد نعیم صاحب رحمہ اللہ دارالعلوم وقف دیوبند کے شیخ الحدیث رہے ہیں۔

تعلیم و تربیت:
مفتی یاسر ندیم الواجدی نے قرآن پاک کا کچھ حصہ مدرسہ میں حفظ کیا پھر گھر میں رہ کر والدین کی نگرانی میں حفظ کی تکمیل کی۔ ابتداء سے دورہ حدیث تک کی تعلیم عالم اسلام کے مشہور علمی مرکز دارالعلوم دیوبند میں ہوئی۔ 2001ء میں فضیلت مکمل کرنے کے بعد آپ نے عربی ادب کا ایک سالہ کورس کیا اور پھر افتاء بھی دارالعلوم دیوبند ہی سے 2002-2003 میں مکمل کیا۔ دارالعلوم دیوبند میں آپ کے اساتذہ میں شیخ الحدیث حضرت مولانا نصیر احمد خان صاحب، حضرت مفتی سعید احمد پالنپوری صاحب اور حضرت مولانا نعمت اللہ اعظمی صاحب جیسے اساطین علم وفضل شامل ہیں۔ 2004 میں آپ امریکہ واپس چلے گئے اور وہاں عربی زبان و ادب میں امریکن اوپن یونیورسٹی سے ایم اے کی سند حاصل کی۔ پھر 2012 میں آپ نے بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی ملیشیا سے حدیث میں پی ایچ ڈی کی سند حاصل کی آپ نے اپنا مقالہ جامعہ عالمیہ اسلامیہ کے مشہور وعبقری استاذ مولانا ڈاکٹر ابواللیث خیرآبادی کی نگرانی میں مکمل کیا۔

علمی مصروفیات اور دارالعلوم آن لائن کا قیام:
دو ہزار چار میں جب آپ امریکہ منتقل ہوئے تو معہد تعلیم الاسلام میں میں تدریس کا موقع ملا، تب سے اب تک آپ اسی ادارے سے منسلک ہیں اور علیا درجات کی کتابیں پڑھاتے ہیں۔ دو ہزار نو میں آپ نے دارالعلوم آن لائن قائم کیا۔ جس کے تحت عالمیت، فضیلت اور تخصص وغیرہ کے مختلف کورس آن لائن کروائے جاتے ہیں۔ یہ اپنی نوعیت کا پہلا ادارہ تھا، اس سے پہلے عالم کورس کی آن لائن تدریس کا تصور نہ تھا۔ اس ادارے کا چھ سالہ نصاب ماہر اساتذہ کے ذریعے انگریزی زبان میں پڑھایا جاتا ہے۔
موجودہ دور میں الحاد و ارتداد کے بڑھتے ہوئے سیلاب کو مد نظر رکھتے ہوئے دارالعلوم آن لائن ہی کے تحت ”تہافت الملاحدہ“ (رد الحاد) کا دو سالہ کورس بھی شروع کیا گیا ہے۔ جس میں براہ راست آپ کے محاضرے ہوتے ہیں۔

تصنیف و تالیف:
آپ نے دارالعلوم دیوبند کے زمانہ طالب علمی میں افتا کے سال ”اسلام اور گلوبلائزیشن “ نامی کتاب تصنیف کی جسے ہر خاص و عام میں غیر معمولی مقبولیت حاصل ہوئی۔ 2014 میں آپ کی مزید دو کتابیں منصہ شہود پر آئیں، پہلی تاریخ تجدید دین اور دوسری القاموس العصری جو کہ ایک ضخیم سہ لسانی لغت ہے۔ جس میں عربی انگریزی اور اردو کے تقریبا پچھتر ہزار الفاظ درج ہیں۔ عربی زبان میں شرح عقود رسم المفتی پر تحقیق کے علاوہ دارالعلوم دیوبند کے عربی جریدے "الداعی” میں 5 تحقیقی مقالے شائع ہو چکے ہیں۔ مفتی صاحب اب تک مختلف فقہی سیمینار اور کانفرنسوں میں متعدد تحقیقی مقالے پیش کرچکے ہیں، جں کہ سو سے زیادہ مضامین ملک و بیرون ملک کے مختلف رسائل و جرائد اور آن لائن ویب پورٹل پر شائع ہوچکے ہیں۔
آپ نے امریکہ کے مختلف علاقوں، کینیڈا، ملائیشیا، آسٹریلیا، بنگلہ دیش اور بھارت کے مختلف علاقوں کے علمی ودعوتی اسفار کیے ہیں۔

سوشل میڈیا اور مفتی یاسر ندیم الواجدی:
سوشل میڈیا چاہے وہ یو ٹیوب ہو یا فیس بک یا پھر ٹوئٹر مفتی صاحب کسی تعارف کے محتاج نہیں۔ خصوصاً نوجوان پڑھے لکھے طبقے میں آپ کو غیر معمولی پذیرائی حاصل ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ آپ اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کے ذریعے عوام الناس کی دینی راہنمائی کا فریضہ انجام دیتے ہیں، نوجوانوں کے عقائد کی اصلاح کے لیے کوشاں رہتے ہیں، انہیں کھلا میدان فراہم کرتے ہیں کہ وہ اپنے شبہات و اعتراضات پیش کریں اور پھر نہایت ہی متانت و سنجیدگی سے ان ہی کی زبان میں مکمل و مدلل اور مسکت جواب دیتے۔ ابھی تک بہت سے نوجوان ان کے ہاتھ پر اسلام قبول کر چکے ہیں۔ وہ مختلف ادیان کا گہرا مطالعہ بھی کرچکے ہیں اور اس میدان کے مشہور مناظر بھی ہیں، انہوں نے متعدد آن لائن ڈبیٹس میں اسلام مخالفین کے سامنے حق کی شاندار ترجمانی کی ہے۔ (جب ہم نے دو ماہی آگہی و نظر رسالے کا دو سال پہلے اجرا کیا تو اس کا پہلا اداریہ بھی مفتی صاحب نے لکھا تھا۔ یہ تعارفی مضمون ایک انڈین اخبار میں چھپ چکا ہے۔