بعض مساجد میں یہ دیکھنے کو ملا ھے کہ:
* ہر نماز کی جماعت کے اختتام پر تمام نمازی باری باری آ کر امام صاحب سے مصافحہ کرتے ہیں اور منہ سے سلام نہیں کہتے
* فجر اور عصر کی نماز کے اختتام پر سب کا ایک قطار میں کھڑے ہو جانا اور ایک ایک کر کے سب سے مصافحہ کرتے ہوئے چلتے جانا
ایسا کرنا تو اتنا زیادہ ہو گیا ھے کہ لوگ اب اسے ضروری اور باعثِ ثواب سمجھ بیٹھے ہیں اور ہاتھ ملائے بغیر جاتے نھیں۔ جو نہیں ملاتا اسے برا سمجھتے ہیں اور عمومی طور پر لوگوں کا خیال ھے کہ ایسا کرنا سنتِ رسول ﷺ ھے
یہ ایک غلط سوچ ھے
اَصل:-
بات یہ ھے کہ کسی عمل کا کرنا اسے برا نہیں بنا دیتا اگرچہ وہ عمل خلافِ شرع نا ہو۔ مگر اس عمل کو اگر دین کا حصہ سمجھا جانے لگا جائے اور پھر اسے دین کا لازمی جز بنا دیا جائے۔ لازمی جز سے مراد ھے کہ اگر وہ عمل کچھ افراد نا کریں تو انہیں قولاً، فعلاً یا دلی طور پر برا سمجھا جائے، انہیں طعن و تشنیع کیا جائے۔ تو اگر اس عمل کو لازمی جز بنا لیا جاتا ھے تو وہ آخر بدعت بن جاتی ھے یعنی دینِ اسلام میں ایک نئی چیز کو التزام سے داخل کر دینا۔
◯ مُفتی اعظم پاکستان نے اِس عاجز سے فرمایا:
"مجھے ڈر ھے کہیں ایسا کرنا ( ہر نماز کے بعد التزام سے مصافحہ کرنا) بدعت ہی نا بن جائے۔”
اس کا مطلب یہ ھے کہ مصافحہ کرنا کوئی بری بات نھیں ھے مگر آج کل مساجد میں جتنے التزام سے اس کا ہونا شروع ہوگیا ھے اس وجہ سے اس کا بدعت بن جانے کا ڈر ھے اور جس کام کے کرنے کو ضروری سمجھ کے باقائدگی سے کرنا شروع کر دیا جائے تو کوئی شک نھیں ایک دن وہ بدعت بن کے رہ جاتی ھے اور لوگ اسے دین کا حصّہ سمجھ بیٹھتے ہیں۔
☆ متفرق غلط سوچیں:
¤ لوگوں کی سوچ یہ ھے کہ اگر ہم مصافحہ کر لیتے ہیں تو کیا ہی حرج ھے؟؟ ۔۔۔ ایک اچھا فعل ہی تو ھے۔
۔۔۔ تو محترمین آپ آگے پیچھے کسی اور وقت مصافحہ کر لیجئے عین نماز کے اختتام پر سب نمازیوں کا امام سے مصافحہ کرنے کا اہتمام کرنا لازمی کیوں بنایا ہوا ھے۔
¤ لوگوں کی ایک اور سوچ کہ مصافحہ کرنا تو سنت ﷺ ھے تو اسی بنا پر ہم مصافحہ کرتے ہیں۔
۔۔۔ تو میرے پیارے بھائیو اتنی سی بات نہیں آپ سمجھ پائے کہ سنت ﷺ عمل وہی ہوتا ھے جو جس مقام پر جس ماحول میں اور جس انداز میں کیا گیا ہو؛ اسی مقام، ماحول اور انداز میں کیا جائے۔ مصافحہ کرنا بلاشبہ سنت ﷺ ھے مگر فورا نماز کے اختتام پر یا فقط فجر و عصر کے وقت ہجوم کا ایک دوسرے سے مصافحہ کرنا نبی ﷺ کی سنت ھے یا کسی صحابی کی؟ ۔۔۔ خوب ذہن نشین کر لیجئے یہ کسی کی سنت نہیں بلکہ ایک مخصوص جماعت کی ایجاد کردہ بدعت ھے اور باقی لوگ دیکھا دیکھی اگلی نسلوں کے لیے ایک نئی بدعت کا اضافہ کر رہے ہیں۔
اِضافی:-
آج کچھ لوگ اسے سنت ﷺ سمجھتے ہیں کل کو مزید لوگ اسے سنت ﷺ سمجھیں گے اور ایک وقت آئے گا جب کوئی یہ کہے گا کہ یہ سنت ﷺ نہیں تو لوگ اس سے جھگڑا کریں گے کہ ہمارے آباؤاجداد اسے سنت ﷺ کہتے آئے ہیں تو تم ان سے زیادہ جانتے ہو کیا؟ ۔ ۔ ۔ تو کوئی شک نہیں کہ پھر اس رسم کو آج ہی روکنا چاہیے۔
حاصلِ کلام:-
کبھی کبھار نماز کے بعد امام صاحب سے اظہارِ محبت کی خاطر ہاتھ ملا لینے میں کوئی حرج نہیں۔ البتہ ہر نماز کے بعد ہر مقتدی کا چاہے امام صاحب سے یا ایک دوسرے سے مصافحہ کرنے کو لازمی سمجھنا مستقل بدعت بن جائے گا۔ مزید ستم تو یہ کہ اس عمل کو جب عام فہم یا دین اسلام سے جاہل مسلمان دیکھیں گے تو وہ اسے سنت ﷺ سمجھیں گے بھی اور آگے اپنی نسلوں کو بھی اسے سنت ﷺ سمجھ کر کرنے کو کہیں گے، کیونکہ ان لوگوں کے سامنے جواز اس مسجد کے امام صاحب کا عمل ھے، جن کے پیچھے وہ ساری نمازیں ادا کرتے ہیں اور وہ امام صاحب ہر نماز کے بعد سب سے مصافحہ کرتے ہیں۔ سو یہ عمل قابل ترک ھے اور دوسروں کو محبت و احسن طریقے سے اس عمل کی اصل بتلائیں۔