کعبہ کی تعمیرِ نو میں شرکت:
طوفانِ نوح [علیہ السلام] کے نتیجے میں کعبۃ اللہ کی عمارت کے نشانات مٹ جانے کے بعد اس کی تعمیرِ نو کا مقدس فریضہ حضرت ابراہیم علیہ السلام اور ان کے فرزند جلیل حضرت اسماعیل علیہ السلام نے انجام دیا تھا۔ لیکن مرورِ زمانہ کے ساتھ ساتھ یہ عمارت کمزور اور مخدوش ہوتی چلی گئی۔ خصوصاً رسول اللہ ﷺ کی عمر مبارک جب پینتیس برس تھی ٗ یعنی آپ ﷺ کی بعثتِ مبارکہ سے پانچ سال قبل مکہ مکرمہ میں ایک زبردست سیلاب آیا جس کے نتیجے میں کافی تباہی ہوئی، اسی سیلاب کی وجہ سے ہی کعبۃ اللہ کی عمارت مزید خستہ و بوسیدہ ہوگئی، حتیٰ کہ اس کے منہدم ہو جانے کا خطرہ محسوس ہونے لگا۔ تب اکابرِ قریش نے غور و فکر اور باہم صلاح و مشورے کے بعدیہ فیصلہ کیا کہ قبل اس کے کہ کسی روز یہ عمارت اچانک گر جائے اور کسی نقصان کا باعث بنے اسے خود ہی منہدم کرکے اس کی تعمیرِ نو کی جائے۔
چنانچہ اس منصوبے کے مطابق کعبہ کی قدیم عمارت کو منہدم کر کے اس کی جگہ نئی عمارت تعمیر کی گئی، تعمیرِ نو کے اس کام میں سردارانِ قریش کے ہمراہ رسول اللہ ﷺ نے بھی بنفسِ نفیس شرکت فرمائی، اس موقع پر آپ ﷺ بھاری پتھر و دیگر سامانِ تعمیر خود اٹھاتے رہے، جس کی وجہ سے آپ ﷺ کے مبارک کندھے زخمی ہوگئے۔
کعبہ مشرفہ کی اس تعمیرِ نو کا یہ کام جب مکمل ہوا تو حجرِ اسود کو اس کے مقام پر نصب کرنے کا مرحلہ آیا تو اس موقع پر سخت اختلاف کی نوبت آئی جس کے نتیجے میں بڑی ہی نازک صورتِ حال پیدا ہوگئی، تلواریں نیاموں سے باہر آگئیں اور شدید جنگ کا خطرہ منڈلانے لگا…کیونکہ ہر ایک کی یہ خواہش تھی کہ حجرِ اسود کو اٹھا کر اس کے مقام پر نصب کرنے کا یہ عظیم شرف اور اعزاز اسی کو نصیب ہو…!!
آخر باہمی مشاورت کے بعدیہ طے کیا گیا کہ کل صبح سب سے پہلے حرم شریف میں جو کوئی داخل ہوگا وہی اس بارے میں کچھ فیصلہ کرے گا اور اس کا فیصلہ سبھی کو قبول ہوگا۔
چنانچہ دوسرے روز علیٰ الصباح لوگوں نے یہ منظر دیکھا کہ سب سے پہلے رسول اللہ ﷺ حرم میں داخل ہو رہے ہیں… آپ ﷺ کو آتا دیکھ کر ان لوگوں کی خوشی کی انتہاء نہ رہی، اور وہ سب فرطِ مسرت سے یک زبان ہو کر پکار اُٹھے: أتا کم الأمین … أتا کم الأمین … یعنی ’’امین آگئے… امین آگئے…‘‘!!
آپ ﷺ نے اپنی چادر مبارک زمین پربچھائی اور حجرِ اسود کو اٹھا کر اس پر رکھا، پھر تمام سردارانِ قریش سے کہا کہ سب مل کر اس چادر کو اٹھائیں، چنانچہ ان سب نے مل کر اس چادر کو اٹھایا اور کعبۃ اللہ تک پہنچایا، تب آپ ﷺ نے خود اپنے دستِ مبارک سے حجرِ اسود کو اس کے مقام پر نصب فرما دیا… یوں آپ ﷺ کی بے مثال فہم و فراست اور حسنِ تدبیر کی وجہ سے اس عظیم شرف میں وہ سبھی شریک ہوگئے اور یوں وہ سب مسرور ومطمئن ہوگئے… جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ان میں باہم بڑی جنگ اور خوں ریزی کا خطرہ ٹل گیا۔
بعثت:
رسول اللہ ﷺ کی عمر مبارک جب پینتیس برس سے تجاوز کر گئی تو طبیعت میں مزید سنجیدگی و متانت کے آثار نمایاں ہونے لگے، آپ ﷺ اکثر خاموش اور تفکر و تدبر میں محو رہتے، آپ ﷺ کی طبیعت اس ماحول سے مسلسل بیزار رہنے لگی کہ جہاں عقیدہ و ایمان اور اخلاق و کردار کے لحاظ سے چہار سو خرابیاں ہی خرابیاں پھیلی ہوئی تھیں، ایسے میں آپ ﷺ کے مزاج میں گوشہ نشینی و خلوت گزینی کی طرف میلان و رجحان بڑھنے لگا، آپ ﷺ کے کندھوں پر اہل و عیال کی ذمہ داریوں کا بوجھ تھا، دنیاوی و کاروباری امور بھی نپٹانا پڑتے تھے، لیکن اب آپ ﷺ کی طبیعت ان تمام کاموں سے اچاٹ رہنے لگی، آخر نوبت یہاں تک پہنچی کہ آپ ﷺ اکثر کئی دنوں کی خوراک اپنے ہمراہ لیتے جو کہ پانی اور ستو پر مشتمل ہوتی ٗ اور مکہ شہر سے کچھ فاصلے پر جبل النور نامی پہاڑ کی بلند و بالاچوٹی پر واقع ’’غارِ حراء‘‘ میں جا بیٹھتے… دنیاسے الگ تھلگ… وہاں آپ ﷺ اکیلے مسلسل کئی کئی دن قیام فرماتے، اللہ کی قدرت کے بارے میں غور و فکر میں منہمک و مستغرق رہتے، اس وقت آپ ﷺ کو کسی خاص مقصودِ حقیقی کے بارے میں کچھ علم نہیں تھا، البتہ تلاشِ حق کی ایک جستجو تھی… ایک عجیب لگن تھی… جس نے بے چین کر رکھا تھا…!!
اسی کیفیت میں وقت گذرتا چلا گیا… جیسے جیسے آفتابِ نبوت کے طلوع ہونے کا وقت قریب آتا گیا آپ ﷺ پر قدرت کے اسرار و رموز منکشف ہونے لگے، آپ ﷺ کو اکثر خواب نظر آتے، اور خواب میں آپ ﷺ جو کچھ دیکھتے جلد ہی حقیقت کی دنیا میں بھی وہی منظر سامنے آ جاتا… خوابوں کا یہ سلسلہ تقریباً چھ ماہ تک جاری رہا۔
اسی کیفیت میں آپ ﷺ کی عمر مبارک جب چالیس سال ہو گئی تو ایک روز جب آپ ﷺ حسبِ معمول غارِ حراء میں ذکر و فکر اور عبادت میں مشغول تھے کہ اچانک وہاں کوئی اجنبی شخص نمودار ہوا جو کہ درحقیقت امین الوحی حضرت جبریل علیہ السلام تھے۔
اس نووارد یعنی جبریل امین نے آپ ﷺ کے قریب آ کر کہا: اِقْرَأ یعنی: ’’پڑھو‘‘ آپ ﷺ نے جواب دیا: مَا أنَا بِقَارِیٔ یعنی: ’’میں تو پڑھا ہوا ہی نہیں ہوں۔‘‘ اس پر جبریل نے دوبارہ کہا: اِقرَأ یعنی: ’’پڑھو‘‘ اور آپ ﷺ نے وہی جواب دیا: مَا أنَا بِقَارِیٔ یعنی: ’’میں تو پڑھا ہوا ہی نہیں ہوں۔‘‘ تب جبریل علیہ السلام نے آپ ﷺ کو گلے سے لگا کر قدرے بھینچا، اور پھر چھوڑ دیا، اس کے بعد تیسری بار کہا:
اِقرَأ بِاسمِ رَبِّکَ الَّذِي خَلَقَ ، خَلَقَ الاِنسَانَ مِن عَلَقٍ، اِقرَأ وَرَبُّکَ الأکرَمُ، الَّذِي عَلَّمَ بَالقَلَمِ، عَلَّمَ الاِنسَانَ مَالَم یَعلَم
یعنی: ’’پڑھ اپنے رب کے نام سے جس نے پیدا کیا، جس نے انسان کو جمے ہوئے خون سے پیدا کیا، پڑھ، اور تیرا رب بڑا مہربان ہے، جس نے قلم کے ذریعے سکھایا، جس نے انسان کو وہ سکھایا جو وہ نہیں جانتا تھا۔‘‘
یہ تھی سب سے پہلی وحی جو خالقِ کائنات کی طرف سے اپنے آخری نبی ﷺ کی جانب نازل کی گئی، تمام آسمانی کتابوں میں سب سے آخری و افضل کتاب کا یہ سب سے پہلے نازل ہونے والا حصہ تھا، جس میں انسان کو اس کے خالق و مالک کی طرف سے تحصیلِ علم کا حکم دیا گیا۔ اس سے دینِ اسلام میں علم کی اہمیت واضح ہوتی ہے، اور یہ حقیقت ثابت ہوتی ہے کہ دینِ اسلام علم و معرفت اورحکمت و بصیرت کا دین ہے۔
[جاری ہے]