رسول اللہ ﷺ کی حیاتِ مبارکہ اگرچہ اب تک مسلسل مشقتوں اور آزمائشوں سے بھرپور تھی، لیکن اب آئندہ عنقریب اس سے بھی بڑھ کر مزید ایسا دور آنے والا تھا جس کیلئے اللہ سبحانہ وتعالیٰ پر مزید پختہ ایمان و یقین از حد ضروری تھا، مثلاً ہجرتِ مدینہ، وہاں نئے ماحول میں نئے مسائل کا سامنا، اور پھر کفار و مشرکین کے خلاف غزوات کی ابتداء وغیرہ… غرضیکہ دینِ اسلام کی روشنی جو اب تک مکہ شہر کی چار دیواریوں تک محدود تھی، اب وقت آگیا تھا کہ یہ روشنی مکہ شہر سے باہرنکلے اور تمام دنیا ’’لاالٰہ الااللہ‘‘ کے نور سے جگمگا اُٹھے… بالفاظِ دیگر اب مشکل ترین اور فیصلہ کن مرحلہ قریب تھا… اور ظاہر ہے کہ اس کیلئے یقیناً بہت بڑی عزیمت اور پختہ یقین ناگزیر تھا۔
جس طرح حضرت موسیٰ علیہ السلام کو اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی طرف سے جب فرعون جیسے سرکش ٗ انتہائی ظالم و جابر اور مغرور و متکبر انسان کے پاس جانے اور اسے اللہ کاپیغام پہنچانے کا حکم دیا گیا تو پہلے انہیں اللہ کی قدرت کاکچھ مشاہدہ کرایا گیا، جیساکہ قرآن کریم میں ارشادہے: ’’اے موسیٰ آپ کے ہاتھ میں یہ کیا ہے؟‘‘
اور پھر ان کے ہاتھ میں موجود اس لاٹھی کو زمین پر ڈالنے کا حکم دیا گیا، اور تب وہ لاٹھی بڑا لہراتا ہوا سانپ بن گئی، اور جب اللہ کے حکم سے موسیٰ علیہ السلام نے اس سانپ کو اپنے ہاتھ سے پکڑا تو اب وہ سانپ دوبارہ لاٹھی بن گیا اور اسی طرح دوسری نشانی بھی دکھائی گئی کہ اپنا ہاتھ بغل میں ڈالنے کے بعدجب باہر نکالا تو وہ خوب چمکنے لگا… اور اس کے بعد اللہ کی طرف سے ارشاد ہوا: ’’اے موسیٰ ہم آپ کو اپنی بڑی بڑی نشانیاں دکھانا چاہتے ہیں۔‘‘
اور پھر یہ حکم دیا گیا:
’’اب آپ فرعون کی طرف جایئے ٗ اس نے تو بڑی سرکشی مچا رکھی ہے۔‘‘
مقصد یہ کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی جانب سے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو ایک بہت بڑی ذمہ داری سونپے جانے سے قبل اللہ کی قدرت کا مشاہدہ کرایا گیا تاکہ اس طرح اللہ پر ان کا یقین و ایمان مزید پختہ ہوجائے اور اس فریضے کی راہ میں آئندہ آنے والی مشکلات کا سامنا کرتے وقت کسی قسم کی گھبراہٹ یا تردد کا شکار ہونے کی بجائے وہ خوب ثابت قدم رہیں۔
بعینہٖ اسی طرح ہم دیکھتے ہیں کہ قرآن کریم میں سفرِ معراج کے تذکرہ کے ضمن میں ارشادہے:
’’تاکہ ہم اسے اپنی قدرت کے کچھ نمونے دکھا دیں۔‘‘
اس آیت میں خود اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی طرف سے اس یادگار سفر کا مقصد یہی بیان کیا گیا ہے کہ اللہ کی طرف سے اپنے حبیب ﷺ کو اپنی کی قدرت کے کچھ نمونوں کا مشاہدہ ونظارہ کرانا مقصود تھا۔
اسی طرح قرآن کریم میں دوسرے مقام پرارشادہے:
’’یقیناً اس نے اپنے رب کی بڑی بڑی نشانیوں میں سے کچھ نشانیاں دیکھ لیں۔‘‘
یعنی رسول اللہ ﷺ کو اس سفرِمعراج کے موقع پر اللہ کی قدرت کی بہت سی بڑی بڑی نشانیوں کا مشاہدہ و نظارہ کرا دیا گیا۔
اور ظاہر ہے کہ اس مشاہدے سے مقصود یہی تھا کہ اللہ پر یقین و ایمان مزید پختہ و مستحکم ہو جائے… یعنی دعوتِ دین کے سلسلہ میں اب آئندہ پیش آنے والے مزید مشکل ٗ اہم ترین اور فیصلہ کن مراحل کیلئے تیاری مقصود تھی۔
[جاری ہے]