٭… رسول اللہ ﷺ کیلئے تسلی و غمخواری کا انتظام
اس یادگار ٗ اہم ترین ٗ نیز انتہائی محیر العقول قسم کے سفر یعنی ’’اسراء و معراج‘‘ سے قبل مسلسل کچھ عرصہ تک پے در پے ایسی مشکلات و صعوبات کا ایک سلسلہ چلتا رہا جو رسول اللہ ﷺ کیلئے حد درجہ ذہنی و جسمانی صدمات اور پریشانیوں کا سبب بنتا رہا، مثلاً آپ ﷺ کے مشفق و مہربان چچا اور سرپرست ابوطالب کی وفات… اور پھر کچھ عرصے بعد ہی آپ ﷺ کی وفا شعار رفیقۂ حیات ام المؤمنین حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کا انتقال… جس کے نتیجے میں کیفیت یہ ہوئی کہ نہ باہر آپ ﷺ کو سکون ملتا تھا… اور نہ ہی گھرکے اندر دل لگتا تھا۔
نیز یہ کہ ابو طالب کے بعد کفار و مشرکین کی طرف سے ایذاء رسانیوں کا سلسلہ بھی مزید شدت اختیار کر گیا… جس کے نتیجے میں آپ ﷺ نے طائف کا رُخ کیا، مگر وہاں اہلِ طائف کی طرف سے انتہائی ظلم وجفاء اور پرلے درجے کی بدسلو کی کا سامنا کرنا پڑا… اور پھر اس کیفیت میں طائف سے مکہ واپسی پر مشرکینِ مکہ کی طرف سے مزید استہزاء و تمسخر اور طعن و تشنیع کا ایک لامتناہی سلسلہ چل نکلا۔
یہ ایک ہلکی سی تصویر ہے اس انتہائی تکلیف دہ اور آلام و مصائب سے بھرپور دور کی جس سے اُن دنوں آپ ﷺ کو گذرنا پڑ رہا تھا۔
ایسے میں خالقِ ارض و سماء کی طرف سے اپنے حبیب ﷺ کیلئے تسلی و غمخواری کا انتظام کیا گیا، ملاقات کا ایک سلسلہ ہوا، آسمانوں پر بلایا گیا، کہ اے ہمارے حبیب! اگر یہ تمام زمین آپ ﷺ پر تنگ کردی گئی تو کیا ہوا؟ ہم نے تو آپ ﷺ کیلئے آسمانوں کے دروازے کھول دئیے ہیں… ابو طالب جیسا محسن و مددگار… اور خدیجہ رضی اللہ عنہا جیسی ہمدرد وفا شعار شخصیات اگر نہیں رہیں تو کیا ہوا… ہم تو موجود ہیں آپ ﷺ کی تسلی و غمخواری کیلئے… طائف والوں نے آپ ﷺ کی میزبانی و خبرگیری کی بجائے اگر آپ ﷺ کے ساتھ بدسلوکی کی ہے… آپ ﷺ پر پتھر برسائے ہیں… اور آپ ﷺ کا دل دکھایا ہے تو کیا ہوا… ہم جو موجود ہیں آسمانوں پر ان سے بہت بہتر میزبانی کیلئے۔
لہٰذا اس سفرِمعراج کے ذریعے جہاں ایک جانب رسول اللہ ﷺ کو عظیم ترین شرف اور بے مثال اعزاز سے نوازنا مقصود تھا… وہیں اس کے ساتھ ساتھ خالقِ ارض و سماء کی جانب سے اپنے حبیب ﷺ کیلئے مسلسل دکھوں اور پریشانیوں کے بعد اب تسلی و غمخواری کا انتظام بھی مقصود تھا۔
[جاری ہے]