اتوار, اکتوبر 6, 2024

واقعہ معراج پر مشرکینِ مکہ کا ردِ عمل

رسول اللہ ﷺ راتوں رات جب اللہ کی قدرت سے بیت المقدس اور پھر آسمانوں کے سفر کے بعد واپس مکہ مکرمہ پہنچے اور مکہ والوں کو اس سفرکے بارے میں مطلع فرمایا تو اہلِ ایمان نے تصدیق کی، اور اسی نسبت سے خاص طور پر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ ہمیشہ کیلئے تاریخ میں ’’صدیق‘‘ کے لقب سے معروف ہوگئے۔ (۱)

جبکہ مشرکینِ مکہ نے آپ ﷺ کی زبانی اس سفر کی روداد سننے کے بعد آپ ﷺ کا بُری طرح مذاق اڑایا، تماشا بنایا، اور تمسخر و استہزاء کا بازار گرم کردیا… اور پھر بالآخر غور و فکرکے بعدیہ فیصلہ کیا کہ کیوں نہ محمد (ﷺ)کی سچائی جاننے کی غرض سے ان کا امتحان لیا جائے … آپ ﷺ کو اس سے قبل کبھی بیت المقدس یا مسجدِاقصیٰ دیکھنے کا اتفاق نہیں ہوا تھا، جبکہ خود مشرکینِ مکہ میں بکثرت ایسے لوگ موجود تھے جن کی بسلسلۂ تجارت ملکِ شام اور بیت المقدس کی طرف آمد و رفت رہتی تھی اور وہ بارہا مسجدِاقصیٰ کا نظارہ بھی کرچکے تھے، لہٰذا باہم مشاورت کے بعد انہوں نے آپ ﷺ سے مخاطب ہوتے ہوئے یہ تقاضا کیا: صِفْ لَنَا المَسْجِدَ یعنی مسجدِاقصیٰ کے بارے میں ہمیں کچھ بتائیے… جس پر آپ ﷺ انہیں مسجداقصیٰ کے بارے میں بتاتے رہے، ان کے سوالات کے جوابات دیتے رہے… مگر بعض سوالات انہوں نے ایسے کئے جن کے جواب میں آپ ﷺ کو کچھ تردد ہونے لگا، کیونکہ ظاہر ہے کہ آپ ﷺ نے بیت المقدس اور مسجدِاقصیٰ میں اپنے اس مختصر ترین قیام کے دوران وہاں کی ہر چیز کا بغور مشاہدہ تو نہیں کیا تھا… مزید یہ کہ یہ بات تو آپ ﷺ کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھی کہ اس بارے میں مشرکینِ مکہ کے ساتھ سوال و جواب کی نوبت آئے گی۔

چنانچہ اب ان کے مسلسل سوالات کے نتیجے میں آپ ﷺ کو جب کچھ تردد ہونے لگا… تو اللہ کی قدرت سے بطورِ معجزہ کیفیت یہ ہوگئی کہ آپ ﷺ کیلئے پردے ہٹا دئیے گئے اور مسافتیں سمیٹ دی گئیں، اور آپ ﷺ کو یوں محسوس ہونے لگا گویا مسجداقصیٰ بالکل آپ ﷺ کی آنکھوں کے سامنے ہی موجود ہے (۲) اور تب آپ ﷺ نہایت روانی کے ساتھ اور بلا کسی تردد کے ان کے ہر سوال کا جواب دینے لگے… اس پر وہ لوگ آپس میں سرگوشیاں کرتے ہوئے آپ ﷺ کے بارے میں یوں کہنے لگے: أمّا النّعْتُ فَقَد أصَابَ … یعنی ’’مسجدِاقصیٰ کی اوصاف و علامات تو بالکل درست بیان کی ہیں۔‘‘

یوں مشرکینِ مکہ نے رسول اللہ ﷺ کی اس سچائی کو جان بھی لیا… اور پھر خوب جانچ بھی لیا… مگر اس کے باوجود اس سچائی کو قبول نہیں کیا۔

[جاری ہے]

(۱) مصنف عبدالرزاق[۵/۳۲۸]

(۲) جیسا کہ حدیث کے الفاظ ہیں: یعنی گویا کہ مسجد میرے سامنے ہی لاکر رکھدی گئی اور میں یوں انہیں مسجد کے اوصاف و علامات بتاتا رہا گویا میں اپنی آنکھوں سے مسجد کا نظارہ کر رہا ہوں… (النسائی فی السنن الکبریٰ : ۱۰/۱۴۸)

متعلقہ خبریں

مقبول ترین

متعلقہ خبریں