آپ ﷺ کی صاحبزادیوں میں سے بڑی صاحبزادی حضرت زینب رضی اللہ عنہا کی شادی آپ ﷺ کی بعثت سے قبل حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی خواہش پر ابوالعاص بن الربیع رضی اللہ عنہ سے ہوئی جو کہ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی بہن ہالہ بنت خویلد کے بیٹے تھے۔ ابوالعاص رضی اللہ عنہ نے سن چھ ہجری میں اسلام قبول کیا اور ہجرت کی، ان کا ایک بیٹا علی تھا جو کمسنی میں فوت ہو گیا تھا (فتحِ مکہ کے یادگار ترین اور تاریخی موقع پر یہی کمسن لڑکا رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ اونٹنی پر سوار تھا۔)
جبکہ ان کی ایک بیٹی بھی تھی جس کا نام اُمامہ تھا، آپ ﷺ اس کے ساتھ بہت زیادہ محبت و شفقت کا معاملہ فرمایا کرتے تھے (حتیٰ کہ بعض اوقات اسے گود میں اٹھائے ہوئے ہی نماز بھی پڑھ لیاکرتے تھے۔)
دوسری صاحبزادی حضرت رقیہ رضی اللہ عنہا کی شادی بعثت سے قبل ابولہب کے بیٹے عتبہ سے ٗ جبکہ تیسری صاحبزادی حضرت ام کلثوم رضی اللہ عنہا کی شادی ابولہب کے دوسرے بیٹے عتیبہ سے ہوئی تھی، اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی طرف سے حکم: {وَأنْذِرعَشِیرَتَکَ الأقْرَبِینَ} (۱) (یعنی: ’’آپ ﷺ اپنے قریبی رشتے داروں کو [اللہ کے عذاب سے] ڈرائیے۔‘‘) کے نزول کے بعدجب آپ ﷺ نے کوہِ صفا پر بنو ہاشم کو جمع کیا اور اللہ کاپیغام پہنچایا تو اس موقع پر ابولہب نے کہا: تَبّاً لَکَ ! أمَا دَعَوتَنَا اِلّا لِھٰذا…؟ یعنی (نعوذباللہ) اے محمد! تم ہلاک جاؤ، کیاتم نے ہمیں اسی لئے یہاں بلایاتھا…؟ (۲)
ابولہب کی اس بیہودہ گوئی پرآپ ﷺ انتہائی رنجیدہ و دل گرفتہ ہوئے، جس پر آپ ﷺ کی تسلی و دلجوئی کیلئے سورۃ المسد {تَبّتْ یَدَا أبِي لَھَب وَتَبَّ…} نازل ہوئی (یعنی :’’ٹوٹ جائیں ابولہب کے دونوں ہاتھ اور وہ خود بھی ہلاک ہو جائے…‘‘)
اس پر ابولہب مشتعل ہوگیا اور اس نے اپنے دونوں بیٹوں عتبہ اور عتیبہ کو حکم دیا کہ وہ آپ ﷺ کی صاحبزادیوں (حضرت رقیہ رضی اللہ عنہا، و حضرت ام کلثوم رضی اللہ عنہا) کو طلاق دے دو، چنانچہ انہوں نے ایسا ہی کیا۔
کچھ عرصہ گذرنے کے بعد آپ ﷺ نے اپنی صاحبزادی حضرت رقیہ رضی اللہ عنہا کی شادی اپنے جلیل القدر صحابی حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ سے کردی، ان دونوں نے پہلے مکہ سے حبشہ کی جانب ہجرت کی، اور پھر چند سال بعد ایک غلط فہمی کے نتیجے میں حبشہ سے مکہ کی جانب واپسی ہوئی، اور پھر ہجرتِ مدینہ کا حکم نازل ہونے کے بعد مکہ سے مدینہ کی جانب ہجرت کی، سن دو ہجری میں عین غزوۂ بدر کے روز مدینہ میں ان کا انتقال ہوگیا۔(۳)
تب آپ ﷺ نے اپنی دوسری صاحبزادی حضرت ام کلثوم رضی اللہ عنہا کا نکاح حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ سے کرا دیا، اور اسی دوہرے شرف کی وجہ سے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ ’’ذوالنورین‘‘ کے لقب سے معروف ہوئے۔
سب سے چھوٹی صاحبزادی حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی شادی آپ ﷺ نے حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے کی جو آپ ؑﷺ کے عم زاد(چچازاد) ہونے کے علاوہ مزید یہ کہ ابتداء سے ہی آپ ﷺ ہی کی کفالت و سرپرستی میں بھی تھے، ان سے حضرات حسن وحسین رضی اللہ عنہما پیدا ہوئے۔
آپ ﷺ کی تین صاحبزادیاں (زینب ، رقیہ، ام کلثوم رضوان اللہ علیہن) عین جوانی کی عمر میں آپ ﷺ کی حیات میں ہی اس جہانِ فانی سے کوچ کر گئیں، جبکہ چوتھی اور سب سے چھوٹی اور لاڈلی صاحبزادی حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی وفات آپ ﷺ کی رحلت کے چھ ماہ بعد اٹھائیس برس کی عمر میں ہوئی۔
(۱)الشعراء[۲۱۴]
(۲)صحیح بخاری کتاب التفسیر،سورۃ المسد۔
(۳)بعض مؤرخین کے بقول حضرت رقیہ رضی اللہ عنہا کی مکہ سے خفیہ ہجرت اور حبشہ جیسے دور دراز مقام کی جانب بے بسی وکسمپرسی کے عالم میں روانگی کی وجہ سے ان کی والدہ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا انتہائی افسردہ و رنجیدہ رہنے لگیں، اور بالآخر یہی صدمہ ان کی بیماری اور پھر وفات کاسبب بنا… جبکہ دوسری طرف ماں سے دوری اور پھر ماں کی وفات کی خبر حضرت رقیہ رضی اللہ عنہا کی بیماری اور پھر وفات کاسبب بنی… واللہ اعلم۔
[جاری ہے]