رسول اللہ ﷺ کی بعثت جن حالات میں ہوئی اُس وقت صورتِ حال کچھ ایسی تھی کہ انسانیت اندھیروں میں بھٹک رہی تھی، کفر و شرک اور ہر قسم کی معصیت و ضلالت عروج پر تھی، عقیدہ و ایمان کا معاملہ ہو ٗ یا اخلاق و اقدار کی بات ہو ٗ ہر لحاظ سے پستی و انحطاط کا وہ دور تھا، بت پرستی ٗ توہم پرستی ٗ ستارہ پرستی ٗ اور ہر گمراہی اس معاشرے میں موجود تھی، معمولی باتوں پرلڑائی جھگڑا ٗ قتل و غار تگری ٗ فتنہ و فساد اور خوں ریزی ان کا پسندیدہ ترین مشغلہ تھا، ہر طرف لوٹ کھسوٹ کا بازار گرم تھا، قاعدہ و قانون نام کی کسی چیز کا دور دور تک کوئی وجود نہیں تھا، ہر برائی اپنے عروج پر تھی، اور ہر لحاظ سے وہ لوگ پستی کی انتہاء کوپہنچے ہوئے تھے، کون سی برائی تھی جو اس معاشرے میں موجود نہیں تھی…؟ اور سب سے بڑھ کر رونگٹے کھڑے کردینے والی برائی اس معاشرے میں یہ تھی کہ وہ لوگ عارکے ڈرسے خود اپنے ہی ہاتھوں اپنی بیٹیوں کو زندہ در گور کر دیا کرتے تھے، انسانیت سسک سسک کر دم توڑ رہی تھی، تڑپتی ٗ سسکتی ٗ دم توڑتی انسانیت کی مثال کسی تپتے ہوئے صحراکی مانند تھی جو صدیوں سے ابرِ رحمت کا منتظر ہو… !
ایسے میں خالقِ کائنات نے اپنا فضل و کرم فرمایا، اور اپنے نبی ﷺ کو پیاسی انسانیت کیلئے ابرِ رحمت بنا کر بھیجا، جیساکہ قرآن کریم میں ارشاد ہے:
وَ مَا أرسَلنَاکَ اِلّا رَحمَۃً لِّلعَالَمِینَ
یعنی: اے نبی! ہم نے آپ کو تمام دنیا والوں کیلئے رحمت بنا کر ہی بھیجا ہے۔ الأنبیاء [۱۰۷]
ہر طرف چھائی ہوئی ان ظلمتوں کے درمیان آپ ﷺ اللہ کی طرف سے مینارۂ نور ٗ مشعلِ راہ اور روشن چراغ بن کر آئے۔ جیسا کہ ارشادِ ربانی ہے:
…وَ دَاعِیاً اِلَیٰ اللّہِ بِاِذْنِہٖ وَ سِرَاجاً مُّنِیراً
یعنی: … ہم نے آپ کو بھیجا ہے اللہ کے حکم سے اُس کی طرف بلانے والا، اور روشن چراغ بناکر۔
الأحزاب [۴۶]
مقصد یہ کہ جس طرح چراغ سے اندھیرے دور ہو جاتے ہیں ٗ اسی طرح اللہ نے آپ ﷺ کوکفر و شرک اورمعصیت و ضلالت کی تاریکیاں دور کرنے والا بنا کر بھیجا۔
بعثت کے فوری بعد:
رسول اللہ ﷺ پہلی وحی کے نزول کے بعد خلافِ معمول جلد گھر لوٹ آئے اور آتے ہی لیٹ گئے، اور اپنی زوجہ محترمہ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا:
زمِّلُونِي ۔ زمِّلُونِي
یعنی ’’مجھے چادر اڑھا دو، مجھے چادر اڑھا دو۔‘‘
جس پرحضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے آپ ﷺ کوچادر اڑھا دی۔
کچھ توقف کے بعد جب طبیعت قدرے سنبھلی تو آپ ﷺ نے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے سامنے تمام صورتِ حال بیان کی، اور پھر اپنی پریشانی کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا:
قَد خَشِیتُ عَلَیٰ نَفْسِي
یعنی ’’مجھے تو اپنی جان خطرے میں محسوس ہو رہی ہے۔‘‘
تب حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے آپ ﷺ کو تسلی دیتے ہوئے فرمایا:
کَلَّا، وَاللّہِ لَا یُخزیکَ اللّہُ أبَداً ، اِنَّکَ لَتَصِلُ الرَّحِمَ ،وَتَصْدُقُ الحَدِیثَ ، وَتَحْمِلُ الکَلَّ، وَتکْسِبُ المَعدُومَ ، وَتَقْرِي الضَّیفَ ، وَتُعِینُ عَلیٰ نَوَائِبِِِ الحَقِّ…
ترجمہ: ’’نہیں نہیں! اللہ کی قسم! اللہ آپ کو ہر گز اس کام میں رسوا نہیں کرے گا، کیونکہ آپ صلہ رحمی کرتے ہیں، سچ بولتے ہیں، مہمان نواز ہیں، محتاجوں اور غریبوں کی مدد کرتے ہیں، اور راہِ حق میں لوگوں کی مددکرنے والے ہیں۔‘‘
بخاری [۳] کتاب بدء الوحی
حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے آپ ﷺ کو تسلی تو دی، اور اس یقین کا اظہار بھی کیا کہ جب آپ ﷺ کے اخلاق اس قدر اچھےہیں تو پھر اللہ کی طرف سے یقیناً آپ ﷺ کی حفاظت اور مدد و نصرت کا غیبی انتظام بھی ضرور ہوگا…!
لیکن ظاہر ہے کہ یہ بات خود ان کیلئے بھی بڑی تشویش کا باعث تھی۔ چنانچہ وہ مزید اطمینان اور تسلی کی غرض سے فوراً ہی آپ ﷺ کو اپنے چچا زاد بھائی ورقہ بن نوفل کے پاس لے گئیں جو ظہورِ اسلام سے قبل ہی بت پرستی سے بیزار ہو کر ایک عرصے تک تلاشِ حق میں سرگرداں رہے، اور پھر تلاش و جستجو کے بعد بالآخر اپنی دانست کے مطابق اس وقت کے صحیح دین یعنی ’’نصرانیت‘‘ کو قبول کر چکے تھے، اور اکثر انجیل بھی پڑھتے رہتے تھے، انتہائی عمر رسیدہ ہونے کی وجہ سے آنکھوں کی بینائی سے محروم ہوچکے تھے۔ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا رسول اللہ ﷺ کو ہمراہ لئے ہوئے ورقہ کے پاس پہنچیں اور کہا کہ دیکھو یہ (رسول ﷺ) کیاکہتے ہیں…! اس پر ورقہ نے آپ ﷺ کی طرف متوجہ ہوتے ہوئے کہا کہ بولو بھتیجے کیا بات ہے؟ تب آپ ﷺ نے تمام ماجرا بیان فرمایا۔ جسے سننے کے بعد ورقہ بن نوفل نے کہا:
ھٰذا النّاموس الّذي أنزلَہُ اللّہُ عَلیٰ مُوسیٰ
یعنی ’’یہ تو وہی ناموس ہے جو اللہ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی جانب نازل کیا تھا۔‘‘
اس کے بعدمزیدکہا:
یَا لَیتَنِي جَذَعاً ، لَیتَنِي أکُونُ حَیّاً اِذ یُخرِجُکَ قَومُکَ
یعنی: ’’کاش میں جوان ہوتا، کاش میں اُس وقت تک زندہ رہتا کہ جب آپ ﷺ کی قوم آپ ﷺ کو شہرسے نکال دے گی۔‘‘
اس پر آپ ﷺ نے حیرت و تعجب کے عالم میں دریافت فرمایا: أوَ مُخرِجِيَّ ھُم؟ یعنی ’’ کیا یہ میری ہی قوم کے لوگ مجھے میرے شہر سے نکال باہر کریں گے؟‘‘ ورقہ نے جواب میں کہا: نَعَم یعنی ’’ہاں۔‘‘ اور پھر مزید کہا: لَم یَأتِ رَجُلٌ بِمِثلِ مَا جِئتَ بِہٖ اِلَّا عُودِيَ یعنی ’’جب بھی کسی نے ایسی تعلیم پیش کی کہ جیسی تعلیم آپ ﷺ لے کر آئے ہیں ٗ تو اس کے ساتھ ہمیشہ دشمنی ہی کی گئی ہے۔‘‘
اور پھر محض چند روز بعد ہی ورقہ بن نوفل کی وفات ہوگئی۔
اس کے بعد جبریل امین بھی جلد دوبارہ نہیں آئے، بلکہ کچھ عرصہ گذر گیا، غالباً اس توقف میں حکمت یہ ہوگی کہ رسول اللہ ﷺ کی طبیعت پر سکون ہو جائے، اور آپ ﷺ کا ذہن اس حقیقت کو قبول کرلے۔
اور پھر اس توقف کے بعد ایک روز جبریل علیہ السلام دوبارہ وحی لے کر آئے، اس بار وہ سورۃ المدّثر کی ابتدائی پانچ آیات لے کر آئے تھے:
یَا أیُّھَا المُدَّثِر ، قُم فَأنْذِر ، وَرَبَّکَ فَکَبِّر ، وَثِیَابَکَ فَطَھِّر ، وَالّرُجْزَ فَاھْجُر
ترجمہ: اے چادر اوڑھنے والے، اٹھ کھڑے ہو جاؤ، اور آگاہ کرو، اور اپنے رب کی بڑائی بیان کرو، اور اپنے کپڑوں کو پاک رکھو، اور ناپاکی سے دوررہو۔
المدثر [۱۔۵]
اس بارے میں رسول اللہ ﷺ نے خود یہ واقعہ بیان کرتے ہوئے فرمایا:
بَینَا أنَا أمشِي سَمِعْتُ صَوتاً مِنَ السَّمَائِ، فَرَفَعتُ بَصَرِي قِبَلَ السَّمَائِ، فَاِذَا المَلَکُ الّذِي جَائَ نِي بِحِرَاء قَاعِدٌ عَلَیٰ کُرسِيٍّ بَینَ السَّمَائِ وَالأرضِ، فَجَئِثتُ مِنہُ حَتّیٰ ھَوَیتُ اِلَیٰ الأرضِ، فَجِئتُ أھْلِي ، فَقُلتُ : زمِّلُونِي ، زمِّلُونِي، فَزَمَّلُونِي ، فَأنْزلَ اللّہُ تَعَالیٰ : یَا أیُّھَا المُدَّثِر ، اِلَیٰ قولہٖ : فَاھْجُر
ترجمہ: میں چلا جا رہا تھا کہ اچانک میں نے آسمان کی طرف سے ایک آواز سنی، میں نے نگاہ اٹھا کر دیکھا تو وہ فرشتہ جو غارِ حراء میں میرے پاس آیا تھا ٗ میں نے دیکھا کہ وہی فرشتہ آسمان و زمین کے درمیان ایک کرسی پر بیٹھا ہوا ہے، میں گھبراہٹ کی وجہ سے زمین پر بیٹھ گیا، پھر گھر پہنچتے ہی میں نے اپنی اہلیہ سے کہا ’’مجھے کوئی چادر اڑھا دو، مجھے کوئی چادر اڑھا دو‘‘ جس پر انہوں نے مجھے چادر اڑھا دی، تب اللہ تعالیٰ نے یَا أیُّھَا المُدَّثِر سے وَالّرُجْزَ فَاھجُر تک آیات نازل فرمائیں۔
بخاری [۴۹۲۶] کتاب التفسیر، باب: والرجزفاہجر۔
[جاری ہے]