پیر, اکتوبر 7, 2024

بعض فضائلِ اُم المؤمنین حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا

ام المؤمنین حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے مقام و رتبے کا اندازہ اس بات سے بخوبی کیا جاسکتا ہے کہ ایک بار جبریل امین علیہ السلام جب رسول اللہ ﷺ کے پاس تشریف لائے تو فرمایا: (یَا رَسُولَ اللّہ ! ھٰذہٖ خدیجۃ قَد أتَت ، مَعَھَا اِنَاء وَ طَعَام، فَاِذا أتَتکَ فَاقرَأ عَلَیھَا السَّلَامَ مِن رَبِّھَا وَمِنِّي، وَبَشِّرھَا بِبیت فِي الجَنَّۃ مِن قَصَب، لَاصَخَبَ فِیہِ وَلَانَصَب) (۱)
یعنی: (اے اللہ کے رسول! یہ خدیجہ چلی آ رہی ہیں، ایک برتن اور کچھ کھانا لئے ہوئے… جب وہ آپ کے پاس آئیں تو آپ انہیں ان کے رب کی طرف سے ٗ نیز میری طرف سے سلام کہیں، اور انہیں جنت میں ایسے گھر کی خوشخبری بھی سنائیں جو ہیرے کا بنا ہوا ہے، اس گھر میں نہ کوئی شور و شغب ہوگا اور نہ ہی کوئی تھکاوٹ)۔

حقیقت یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ اس مبارک رشتۂ ازدواج میں منسلک ہو جانے کے بعد حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا پچیس برس تک مسلسل آپ ﷺ کیلئے خلوص و وفاء کا پیکر بنی رہیں، زندگی بھر آپ ﷺ کی خدمت و اطاعت* ٗ آپ ﷺ کے ساتھ حسنِ سلوک اور عزت و احترام کی نادر مثال قائم کی۔ جبکہ آپ ﷺ کو بھی حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا سے بے پناہ محبت تھی، آپ ﷺ نے ان کی زندگی میں اور کوئی نکاح نہیں کیا، ان کی وفات کے بعد آپ ﷺ زندگی بھر انہیں یاد کرتے رہے اور مختلف مواقع پر نہایت بےتابی کے ساتھ ان کا ذکرِ خیر کرتے رہے۔

ایک موقع پر آپ ﷺ نے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کا تذکرہ ان الفاظ میں فرمایا:
(… آمَنَتْ بِي اِذ کَفَرَ بي النّاسُ، وَصَدَّقَتنِي اذ کَذَّبَنِي النّاسُ، وَ وَاسَتنِي بِمَالِھَا اذ حَرَمَنِي النّاسُ، وَرَزَقَنِي اللّہُ مِن أولَادِھا اذ حَرَمَنِي أولاَدَ النّاسِ…)(۲)
یعنی: ’’خدیجہ نے اس وقت مجھ پر ایمان قبول کیا جب لوگوں نے میرے ساتھ کفر کیا، میری تصدیق کی جب لوگوں نے میرا انکار کیا، اپنے مال کے ذریعے میری مدد کی جب لوگوں نے مجھے محروم رکھا، نیز یہ کہ اللہ نے مجھے اولاد بھی انہی سے عطاء فرمائی…!‘‘

مختصرتذکرۂ اولادِنبیﷺ ازحضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا

آپ ﷺ کی تمام اولاد بھی حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا سے ہی تھی۔ سوائے ابراہیم کے جو حضرت ماریہ قبطیہ رضی اللہ عنہا سے تھے، جن کی پیدائش بہت بعد میں مدینہ منورہ میں ہوئی، اور وہیں تقریباً ڈیرھ سال کی عمر میں وفات بھی ہوئی۔)
جبکہ آپ ﷺ کی باقی تمام اولاد حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے بطن سے ہی تھی۔ یعنی: قاسم، زینب، رقیہ، ام کلثوم، فاطمہ، اور عبداللہ رضی اللہ عنہم اجمعین۔

دونوں بیٹے قاسم اور عبداللہ بچپن میں ہی وفات پاگئے، جس پر مشرکینِ مکہ باہم یوں کہنے لگے کہ محمد (ﷺ) کی کوئی اولادِ نرینہ تو ہے نہیں، صرف بیٹیاں ہی ہیں… لہٰذا ہمیں ان کے اس نئے دین کی مقبولیت اور ہر دم بڑھتی ہوئی شہرت سے پریشان ہونے کی ضرورت ہی نہیں… کیونکہ ان کے بعد ان کی نسل کا خاتمہ ہو جائے گا اور کوئی ان کا نام لیوا نہیں رہےگا… اور یوں ان کا یہ دین بھی خود بخودختم ہو جائے گا…!

اس پر سورۃ ’’الکوثر‘‘ نازل ہوئی، جس میں اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی جانب سے اپنے حبیب ﷺ کی دلجوئی و تسلی کی غرض سے یہ خبر دی گئی کہ ’’ابتر‘‘ یعنی ’’بے نام و نشان‘‘ آپ ﷺ نہیں، بلکہ آپ ﷺ کو طعنہ دینے والے یہ بدبخت خود بے نام و نشان ہو جائیں گے…!!

چنانچہ حقیقت یہی ہے کہ چودہ سو سال سے زیادہ گذر جانے کے باوجود آج بھی دنیاکے کونے کونے میں آپ ﷺ کے نام لیوا موجود ہیں، جن کی آپ ﷺ کے ساتھ والہانہ عقیدت و محبت کا یہ عالم ہے کہ آپ ﷺ کا نامِ نامی اور اسمِ گرامی سنتے ہی ان کے دل کی دھڑکنیں تیز ہونے لگتی ہیں… جذبات بے قابو ہونے لگتے ہیں … اور … فرطِ عقیدت کی وجہ سے ان کی آنکھوں سے بے اختیار آنسو بہنے لگتے ہیں… آج بھی مشرق و مغرب … شمال اور جنوب… دنیاکے ہر گوشے میں چہار سو پھیلی ہوئی ان بےشمار مساجد کے عظیم الشان اور بلند وبالا میناروں سے روزانہ پانچ بار مؤذن پکارتا ہے… اشہدأن لاالٰہ الااللہ… اشہدأن محمداً رسول اللہ… اوریہ سلسلہ تو تاقیامت جاری رہے گا…!

جبکہ آپ ﷺ کو بے نامی کا طعنہ دینے والے وہ دشمن آج خود بے نام ونشان ہیں…!!

(۱) صحیح بخاری [۳۸۲۰کتاب المناقب،باب تزویج النبی ﷺ خدیجۃ و فضلہا۔ نیز [۷۴۹۷] کتاب التوحید۔
(۲) مجمع الزوائد[ ۹؍۲۲۷]

[جاری ہے]

گزشتہ مضمون
اگلا مضمون
متعلقہ خبریں

مقبول ترین

متعلقہ خبریں