Home اسلام تجارت و نکاح

تجارت و نکاح

39

تجارت:

چونکہ مکہ اور اس کے مضافات میں زراعت کا کہیں کوئی وجود نہیں تھا ٗ لہٰذا قریش کی معیشت کا تمام تر انحصار تجارت پر تھا۔ بنو ہاشم کے جدا مجد یعنی خود ہاشم کا بھی یہی ذریعۂ معاش تھا، اور اب ابوطالب کا بھی یہی پیشہ تھا۔

رسول اللہ ﷺ نے بچپن اور پھر لڑکپن کی منزلیں طے کرنے کے بعد نوجوانی کے مرحلے میں جب قدم رکھا تو آپ ﷺ نے بھی تجارت کو ہی اپنا ذریعۂ معاش بنایا، اور اس دور میں اپنے سرپرست اور مشفق چچا ابوطالب کے ہمراہ آپ ﷺ نے متعدد تجارتی سفر بھی کئے۔ اُن دنوں تجارت کے حوالے سے چہار سو آپ ﷺ کے حسنِ معاملہ ٗ راست بازی اور امانت و دیانت کے چرچے ہونے لگے، اپنے اور پرائے ٗ دوست و دشمن سبھی آپ ﷺ کو ’’صادق و امین‘‘ کے لقب سے پکارنے لگے…!!

حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا سے نکاح:

خدیجہ بنت خویلد انتہائی شریف النفس اور صاحبِ حیثیت خاتون تھیں، مکہ میں ان کا خاص مقام و رتبہ تھا اور قریش کے عوام و خواص سبھی انہیں نہایت عزت و عظمت کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔

حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کا سلسلۂ نسب پانچویں پشت میں رسول اللہ ﷺ کے خاندان سے جا ملتا ہے، وہ بیوہ تھیں، اپنی شرافتِ نفس ٗپاکیزگیٔ اخلاق اور عفت و عصمت کی وجہ سے زمانۂ جاہلیت میں بھی لوگ انہیں ’’طاہرہ‘‘ کے لقب سے پکارا کرتے تھے۔

حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کا کاروبار اس قدر وسیع پیمانے پر تھا کہ اہلِ مکہ کا جب کوئی تجارتی قافلہ روانہ ہوتا تو اس میں اکثریت حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے مال و اسباب سے لدے ہوئے اونٹوں کی ہوتی، اپنے کاروباری امور کی انجام دہی و نگرانی کی غرض سے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا مختلف اشخاص کی خدمات حاصل کیا کرتی تھیں۔

انہی دنوں حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کو جب رسول اللہﷺ کی راست بازی اور امانت و دیانت کی خبریں ملیں تو انہوں نے آپ ﷺ کو یہ پیغام بھجوایا کہ آئندہ جو تجارتی قافلہ مکہ سے ملکِ شام کیلئے روانہ ہوگا اس کی نگرانی آپ ﷺ کریں، ساتھ ہی معقول معاوضے کا بھی وعدہ کیا۔

آپ ﷺ نے اپنے سرپرست ومشفق چچا ابوطالب سے مشورے کے بعد اس پیشکش کو قبول فرمایا اور سفرِ شام کیلئے تیار ہوگئے۔

چنانچہ آپ ﷺ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کا مالِ تجارت لے کر ملکِ شام کی طرف روانہ ہوئے، توفیقِ الٰہی سے اس سفر میں بہت زیادہ منافع ہوا۔ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے ’’میسرہ‘‘ نامی اپنا ایک غلام بھی اس سفر میں آپ ﷺ کے ہمراہ روانہ کیا تھا، اس نے واپس مکہ پہنچنے پر حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے سامنے آنکھوں دیکھا حال بیان کیا، آپ ﷺ کی راست بازی، معاملہ فہمی، پرہیزگاری، امانت و دیانت، فہم و فراست، حسنِ تعامل، و دیگر صفاتِ حمیدہ کا تذکرہ کیا، یہ سب کچھ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کیلئے انتہائی فرحت و مسرت اور اطمینان کا باعث بنا۔

حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا اس سے قبل دو بار بیوہ ہوچکی تھیں، ان کا پہلا نکاح عتیق مخزومی سے ٗ اور پھر ان کے انتقال کے بعد دوسرا نکاح ہند تمیمی سے ہوا تھا۔
دوسری بار بھی جب وہ بیوہ ہوگئیں تو ان کے مقام و رتبے اور مال و دولت کی وجہ سے بڑے بڑے سردارانِ قریش متعدد بار انہیں پیغامِ نکاح بھجواچکے تھے، لیکن حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا اپنی ذہانت و فہم و فراست کی وجہ سے اس حقیقت کو خوب جان چکی تھیں کہ ان میں سے کوئی بھی مخلص نہیں ہے، یہ سبھی لوگ لالچی اور محض مال و جمال کے بھوکے ہیں… اسی لئے وہ ایسے تمام پیغامات کو رد کر چکی تھیں۔
ایسے میں رسول اللہ ﷺ جب حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کا مالِ تجارت لے کر گئے اور اس سفر میں منافع بہت زیادہ ہوا… اور پھر یہ کہ سفر سے واپسی پر آپ رضی اللہ عنہا نے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کو اس تجارت کا حساب و کتاب پیش کیا… اور چپ چاپ روانہ ہوئے…!

حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا بس سوچتی ہی رہ گئیں کہ کس قدر عجیب و غریب ہے یہ نوجوان … کس قدر سچا اور مخلص ہے یہ انسان… کس قدر سچی اور صاف ستھری ہے اس کی تجارت… کتنی معصومیت ہے اس کی ہر ادا میں… دوسروں کی بنسبت منافع کس قدر زیادہ لایا ہے… لیکن معاوضے کے معاملے میں کوئی تقاضا نہیں… کوئی مطالبہ نہیں… کوئی بحث و تکرار نہیں… معاوضہ جو ملا بس چپ چاپ قبول کرلیا…!

حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کیلئے یہ سب کچھ انتہائی باعثِ حیرت تھا… ایک طرف مسلسل پیغامات بھیجنے والے بڑے بڑے سردارانِ قریش جو کہ دراصل حرص و طمع کے مارے ہوئے اور مال و زر کے پجاری تھے… اور دوسری طرف سیدھا سادھا ٗسچا ٗ مخلص اور اس قدر قناعت پسند ٗ متوکل و قانع یہ نوجوان…!

حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کو آپ ﷺ کی یہی ادا بھاگئی، اور وہ سمجھ گئیں کہ یہی تو ان کی وہ متاعِ گمشدہ ہے جس کی وہ مدت سے متلاشی تھیں…!

تب حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے اپنے دل کی بات اپنی ایک خاص راز دار سہیلی نفیسہ بنت مُنَبِّہ سے کہی، اور انہیں آپ ﷺ کی طرف پیغامِ نکاح لے کر جانے کو کہا۔ نفیسہ نے یہ پیغام آپ ﷺ تک پہنچایا، جس پر آپ ﷺ نے اپنے چچاؤں خصوصاً جناب ابوطالب اور حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ سے مشورہ کیا، ان دونوں نے اس رشتے کی تائید کی، اور پھر یہ دونوں آپ ﷺ کی طرف سے اظہارِ رضا مندی کے طورپر حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے چچا عمرو بن اسدکے پاس پہنچے اور آپ ﷺ کی طرف سے رضا مندی کی انہیں اطلاع دی، اور یوں آپ ﷺ اور حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا اس رشتۂ ازدواج میں منسلک ہوگئے، اور یہ مبارک ترین رشتہ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی وفات تک ٗ یعنی مسلسل پچیس برس قائم رہا۔

رسول اللہ ﷺ کی یہ پہلی شادی تھی، جبکہ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا اس سے قبل دو باربیوہ ہوچکی تھیں، اس شادی کے وقت آپ ﷺ کی عمر مبارک پچیس سال ٗ جبکہ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی عمرچالیس سال تھی۔

[جاری ہے]