Home اسلام رسول اللہ ﷺ کے والدِ گرامی

رسول اللہ ﷺ کے والدِ گرامی

47

عبدالمطلب نے زمزم کا کنواں کھودتے وقت جو دعاء مانگی تھی وہ قبول ہوئی، اللہ نے انہیں دس بیٹے عطاء کئے، جو سب کے سب جوان ہوئے اور اپنے باپ کے دست و بازو بنے، ان دس جوان بیٹوں میں عبداللہ سب سے خوبصورت اور باپ کے بہت لاڈلے تھے۔
اب عبدالمطلب کو اپنی قسم پوری کرنے کی فکر لاحق ہوئی، بیٹوں کو اپنی قسم کے بارے میں بتایا تو سب ہی بیٹوں نے باپ کے سامنے سرِتسلیم خم کردیا، جس پر قرعہ اندازی کی نوبت آئی، قرعہ کے نتیجے میں سب سے زیادہ لاڈلے اور پیارے بیٹے یعنی عبداللہ کا نام نکلا۔ ایک روز عبدالمطلب اپنے اس لاڈلے بیٹے کو قربان کرنے کی غرض سے جب کعبۃ اللہ کی طرف لے جانے لگے تو گھر سے روانگی کے وقت عبداللہ کی بہنوں کی حالت بگڑ گئی اور وہ زور زور سے رونے لگیں، جس پر وہاں لوگوں کا مجمع اکٹھا ہوگیا، سردارانِ قریش بھی آپہنچے، ان سردارانِ قریش اور بہت سے عزیز و احباب نے اصرار کیا کہ عبداللہ کو قربان کرنے کی بجائے قسم پوری کرنے کا کوئی اور راستہ تلاش کیا جائے، ان لوگوں کے اس اصرار کے نتیجے میں عبداللہ کے بھائیوں میں سے ابوطالب نے بھی ہمت کی اور والد سے التجاء کی کہ عبداللہ کو قربان نہ کیا جائے… کوئی اور راستہ تلاش کیا جائے… ان سب لوگوں کے شدید اصرار پر عبدالمطلب نے کہاکہ پھر تم ہی لوگ اس مسئلے کا کوئی حل مجھے بتاؤ۔

اس پر ان سب نے طے کیا کہ یثرب (مدینہ) میں جو ایک مشہور کاہنہ رہتی ہے اس سے رجوع کیا جائے وہی اس مسئلے کا کوئی حل بتائیگی۔ چنانچہ یہ لوگ طویل سفر طے کرکے مکہ سے مدینہ پہنچے، وہاں پہنچ کر معلوم ہوا کہ وہ کاہنہ تو آجکل مدینہ سے مزید آگے خیبر گئی ہوئی ہے اور کچھ معلوم نہیں کہ وہاں سے اس کی واپسی کب ہوگی۔ تب یہ لوگ مدینہ سے خیبر پہنچے، کاہنہ سے ملاقات ہوئی، تمام صورتِ حال بیان کی، جسے سن کر اس نے دریافت کیاکہ تمہارے یہاں اگر کوئی کسی کو قتل کردے تو اس پر مقتول کے ورثاء کو قاتل بطورِ فدیہ (خون بہا) کیا چیز اداء کرتا ہے؟ انہوں نے جواب دیاکہ ہمارے یہاں خون بہا دس اونٹ مقررہے۔

یہ سن کر کاہنہ نے کہاکہ ایک طرف عبداللہ ٗ اور دوسری طرف دس اونٹ رکھے جائیں اور پھر ان دونوں کے درمیان قرعہ اندازی کی جائے۔ قرعہ اندازی کی گئی، نام عبداللہ کا نکلا، کاہنہ نے کہاکہ دس اونٹ بڑھا دئیے جائیں، یعنی ایک طرف عبداللہ اور دوسری طرف بیس اونٹ، چنانچہ دوبارہ قرعہ اندازی کی گئی، مگر نام عبداللہ کا ہی نکلا… اس کاہنہ کے کہنے پر ہر بار دس اونٹ بڑھتے رہے … اور قرعہ اندازی ہوتی رہی… آخر جب سو اونٹ ہوگئے اور قرعہ اندازی کی گئی تو قرعہ اونٹوں کے نام نکلا، تب کاہنہ نے کہا کہ عبداللہ کی بجائے ان سو اونٹوں کو قربان کر دیا جائے، یوں قسم پوری ہوجائیگی۔ لیکن عبدالمطلب نے مزید اطمینان کیلئے ایک بار پھر قرعہ اندازی کی اور تب بھی اونٹوں کے نام ہی قرعہ نکلا… تب عبدالمطلب مطمئن ہوگئے اور ہنسی خوشی خیبر سے واپس مکہ پہنچے اور اپنے پیارے اور لاڈلے بیٹے کے عوض سو اونٹ کعبۃ اللہ کے سامنے قربان کئے اور اور ان کاگوشت اسی جگہ غریبوں اور مسکینوں کیلئے چھوڑ دیا، اور یوں عبدالمطلب بیٹے کی جان بچ جانے پر بھی خوش ہوگئے نیز یہ کہ اب انہیں اس بات کی بھی بیحد خوشی تھی کہ ان کی قسم پوری ہوگئی اوریوں ان کا رب بھی ان سے راضی ہوگیا۔
یوں ہمارے پیارے رسول ﷺ کے سلسلۂ نسب میں قربانی کا واقعہ ایک بار نہیں بلکہ دو بار پیش آیا، پہلی بار حضرت ابراہیم علیہ السلام اوران کے لختِ جگر حضرت اسماعیل علیہ السلام کے ساتھ ٗ اور دوسری بار عبدالمطلب اور ان کے لختِ جگر عبداللہ کے ساتھ۔

نیز یہ کہ اس واقعے کے نتیجے میں خون بہا دس اونٹوں سے بڑھ کر اب سو اونٹ مقرر ہوا جس کے نتیجے میں انسان کی قدر وقیمت بڑھ گئی۔ نیز قتل و خونریزی کے واقعات میں بھی کافی کمی آگئی کہ اب قتل کرنے سے پہلے ہر کوئی بار بار سوچتا کہ اب دس کی بجائے سو اونٹ دینا پڑیں گے… اللہ نے اپنے رسول ﷺ کو ’’رحمۃ للعالمین‘‘ بنانا تھا… یوں دنیا نے آپ ﷺ کی ولادت باسعادت سے پہلے ہی اس ’’رحمت‘‘ کی جھلک دیکھ لی۔

عبداللہ کی شادی

قبیلہ قریش کے سردار عبدالمطلب کے لاڈلے بیٹے ٗ ان کی آنکھوں کے نور اور دل کے سرور… یعنی عبداللہ… جب سو اونٹوں کی قربانی کے عوض قربان ہونے سے بچ گئے… اور زندگی کا سفررواں دواں ہوگیا… تو عبدالمطلب کواپنے اس خوبصورت وخوب سیرت بیٹے کی شادی کی فکر دامن گیر ہوئی۔

قبیلۂ قریش کی جو متعدد شاخیں اور پھر ان میں جو بہت سے خاندان تھے ٗ ان میں’’ بنی زہرہ ‘‘ کے نام سے ایک بڑا معزز خاندان تھا، اس خاندان کے سربراہ کا نام ’’وہب‘‘ تھا، وہب اپنے حسب نسب ٗ خاندان کی سربراہی و سرداری کے علاوہ شرافت و دیانت اور اعلیٰ اخلاق و کردارکے لحاظ سے بھی بہت معروف تھے اور معاشرے میں ان کی بڑی قدر و منزلت تھی۔
وہب کی ایک نہایت چہیتی اورلاڈلی بیٹی تھی جو کہ عصمت و عفت اور شرافت و نجابت میں اپنی مثال آپ تھی اور اسی لئے خاندان میں اس کا منفرد اور ممتاز مقام تھا، اس لاڈلی بیٹی کا نام تھا ’’آمنہ‘‘۔

عبدالمطلب کی نظرمیں اپنے لختِ جگر عبداللہ کیلئے قبیلۂ قریش کی بہت سی خاندانی لڑکیاں تھیں، لیکن ان کی یہ دلی خواہش تھی کہ کسی طرح عبداللہ کا رشتہ وہب کی اس بیٹی آمنہ کے ساتھ طے ہوجائے۔ چنانچہ یہی تمنا دل میں لئے ہوئے ایک روز وہ وہب کے گھر پہنچے، مدعیٰ بیان کیا، اپنے بیٹے عبداللہ کیلئے آمنہ کارشتہ مانگا… جسے وہب نے بخوشی قبول کرلیا۔ یوں ہمارے پیارے نبی ﷺ کے گرامی قدر والدین رشتۂ زوجیت میں منسلک ہوگئے…!

اس شادی کے محض چند ہفتے بعد عبداللہ اپنے والد کی تجارت کے سلسلے میں ملکِ شام کی طرف جانے والے قافلے کے ہمراہ روانہ ہوگئے، جبکہ اس دوران ان کی اہلیہ محترمہ یعنی ’’آمنہ‘‘ ’’امانت دارِ نورِ محمدی‘‘ بن چکی تھیں…!

ملکِ شام سے واپسی کے موقع پر راستے میں عبداللہ بیمار پڑگئے، اور یہ قافلہ جب مدینہ کی حدود میں پہنچا تو ان کی طبیعت اس قدر ناساز ہوگئی کہ وہ مزید سفر جاری رکھنے کے قابل نہ رہے اور مدینہ میں ہی رک گئے [۱] جبکہ قافلہ انہیں چھوڑ کر منزل کی جانب روانہ ہوگیا… مکہ پہنچ کر قافلے والوں نے عبدالمطلب کو جب بیٹے کی بیماری کی اطلاع دی تو وہ انتہائی پریشان اور فکر مند ہوگئے اور فوراً اپنے بڑے بیٹے حارث کو عبداللہ کی خبر گیری کیلئے مدینہ کی طرف روانہ کیا، حارث انتہائی سرعت کے ساتھ جب یہ طویل سفر طے کرکے مدینہ پہنچے تومعلوم ہواکہ عبداللہ کی وفات ہوچکی ہے اور انہیں مدینہ کے محلہ ’’دارالنابغہ‘‘ میں دفن کیا جاچکا ہے… اس پر حارث انتہائی رنجیدہ و افسردہ ہوئے، اور فوراً ہی مکہ کی طرف واپس لوٹ گئے، اور مکہ واپس پہنچنے پر اپنے والد عبدالمطلب کو یہ افسوسناک خبر سنائی …!

انتقال کے وقت جناب عبداللہ کی عمر صرف پچیس برس تھی، جبکہ سیدہ آمنہ کی عمراس سے بھی کم تھی۔ یوں سیدہ آمنہ اپنے محبوب شوہر کی امانت لئے ہوئے ٗ عین عالمِ شباب میں بیوہ ہوگئیں…جبکہ وہ امانت ابھی اس دنیامیں آئی بھی نہیں تھی۔

[۱] مدینہ میں عبداللہ نے خاندانِ ’’بنونجار‘‘ میں قیام کیا تھا، جو کہ ان کی نانی کا خاندان تھا، بعدمیں ہجرتِ مدینہ کے موقع پر رسول اللہ ﷺ کی اونٹنی اللہ کے حکم سے جب مسلسل چلتی چلی جارہی تھی، آخر ’’بنونجار‘‘ کے اسی محلے میں پہنچ کر خود بخود رُک گئی تھی… آپ ﷺ نے وہیں قیام فرمایا تھا اور مسجد نبوی بھی اسی مقام پر تعمیر کی گئی تھی، آپ ﷺ کی مدینہ آمدکے موقع پر بنونجار ہی کی بچیاں نہایت والہانہ انداز میں خیر مقدمی اشعار پڑھ رہی تھیں ’’طلع البدرعلینا…‘‘

[جاری ہے]