پیر, اکتوبر 7, 2024

حضرت عبد المطلب کے دور میں دو اہم ترین اور قابلِ ذکر واقعات

حضرت عبد المطلب کے دور میں دو اہم ترین اور قابلِ ذکر واقعات پیش آئے۔ جن کا مختصر تذکرہ درجِ ذیل ہے:

زمزم کی کھدائی:

زمزم کاچشمہ تو دراصل اللہ کے حکم سے حضرت ہاجرہ اور ان کے لختِ جگر حضرت اسماعیل علیہ السلام کیلئے جاری کیا گیا تھا، لیکن صدیوں تک جاری رہنے کے بعد ایک مرحلہ ایسا آیا جب مکہ میں کسی قبائلی جنگ کے موقع پر جب مخالف قبیلہ غالب آگیا تو جاتے جاتے حسبِ دستور مختلف قسم کی لوٹ مار مچانے اور توڑ پھوڑ کرنے کے ساتھ ساتھ ایک حرکت یہ بھی کی کہ زمزم کاکنواں وہ لوگ بند کرگئے، کیونکہ زندگی کا تمام دارومدار تو پانی پر تھا، لہٰذا دشمنی کے طور پر گویا وہ اہلِ مکہ کیلئے زندگی کا سامان ہی برباد کرگئے اور پھر مرورِ زمانہ کے ساتھ نوبت یہاں تک پہنچی کہ لوگ اس کامحلِ و قوع تک بھول گئے کہ یہ کنواں تھا کہاں…؟

آخر عبدالمطلب جب قوم کے سردار اور متولیٔ کعبہ بنے تو ایک رات انہوں نے خواب میں دیکھا کہ کوئی انہیں زمزم کے کنویں کی کھدائی کاحکم دے رہا ہے، جس پر وہ بہت حیران ہوئے، پھر دوسری رات اور پھر اس کے بعد متواتر تیسری رات بھی یہی خواب دیکھا، اور تیسری رات مزید یہ بھی ہوا کہ خواب میں اس شخص نے انہیں زمزم کے کنوئیں کا محلِ وقوع بھی دکھایا… اور حکم دیاکہ اس جگہ کھدائی کرو۔

چنانچہ عبدالمطلب نے اپنے بڑے بیٹے حارث کو ہمراہ لے کر اس مقام پر کھدائی شروع کی، قبیلے والوں کو جب اس بات کا علم ہوا تو وہ سب ُمصر ہوگئے کہ اس کام میں ہم سب بھی آپ کے ساتھ شریک ہوں گے تاکہ ہم بھی اس شرف اور اعزاز کے حقدار بن سکیں۔ لیکن عبدالمطلب نے ان کایہ مطالبہ تسلیم کرنے صاف انکار کردیا، البتہ اس موقع پر ان لوگوں کے شدید اصرار اورمسلسل دباؤ کی وجہ سے عبدالمطلب اس قدر پریشان ہوئے کہ انہوں نے منت مانی کہ ’’یا اللہ اگر تو مجھے دس بیٹے عطاء کرے اور وہ سب جوان ہو کر میرے دست و بازو بن جائیں (تاکہ آئندہ کوئی مجھے اس طرح پریشان کرنے کی جرأت نہ کرسکے) تو میں ان میں سے ایک بیٹا بطورِ شکر تیرے اس گھرکے سامنے قربان کروں گا…‘‘

اس سے بخوبی اندازہ کیا جاسکتاہے کہ اس سلسلہ میں عبدالمطلب کو اپنی قوم کی طرف سے کس قدر دباؤکا سامنا کرنا پڑا ہوگا۔
لیکن اس قدر شدید دباؤکے باوجود فقط یہی دونوں باپ بیٹا ہی اس کھدائی میں مسلسل مشغول رہے، یہاں تک کہ آخر کئی روزکی محنتِ شاقہ کے بعد زمزم کا پانی نمودار ہوگیا، جو کہ آج تک جاری ہے، اور خلقِ خدا اس سے خوب مستفید ہو رہی ہے۔
الغرض زمزم کی کھدائی کا کام انہی دونوں باپ بیٹانے ہی بلاشرکتِ غیرے مکمل کیا، لہٰذا یہ کنواں حضرت ابراہیم علیہ السلام کے فرزندِ جلیل حضرت اسماعیل علیہ السلام کے علاوہ عبدالمطلب کی بھی یادگار ہے۔

واقعۂ اصحاب الفیل:

دوسرا اہم اور قابلِ ذکر واقعہ جو عبدالمطلب کے دور میں پیش آیا اور جس کا تذکرہ قرآن کریم میں سورۃ الفیل میں بھی موجود ہے، وہ یہ کہ ملکِ یمن کا بادشاہ جس کا نام ابرہہ تھا جب اسے اس بات کا علم ہوا کہ مکہ میں ایک گھر ہے جسے لوگ اللہ کا گھر کہتے ہیں اور اس کی انتہائی تعظیم و تکریم کرتے ہیں تو اس نے اس گھریعنی کعبۃ اللہ کو منہدم کرنے کا فیصلہ کیا۔
ابرہہ کی طرف سے کعبۃ اللہ کو منہدم کرنے کی اس ناپاک و مذموم خواہش کے پیچھے اصل اور براہِ راست محرکات و اسباب کیا تھے؟ اور پھر یہ کہ جب وہ اس مقصد کیلئے یمن سے روانہ ہوا، اور پھر جب مکہ کی حدود میں پہنچا تو اس دوران کیا کیا ہوا…؟ اس سلسلے میں کافی تفصیل ہے جوکہ کتبِ تاریخ میں مذکور ہے۔

خلاصہ یہ کہ کعبۃ اللہ کو منہدم کرنے کی غرض سے وہ اپنا لشکرِجرار لئے ہوئے مکہ کی حدود میں داخل ہوا اور کعبۃ اللہ کی طرف پیش قدمی کی، اس لشکر میں بڑی تعداد میں ہاتھی بھی موجود تھے، جو غالباً جنگی مقاصد کیلئے استعمال کے علاوہ مزید یہ کہ کعبۃ اللہ کو منہدم کرنے کی غرض سے بھی لائے گئے تھے۔

جب یہ لشکر مکہ مکرمہ کے مضافات میں منیٰ کے مقام پر پہنچا تو اچانک فضاء میں اللہ کی قدرت سے چھوٹے چھوٹے پرندوں کے غول نمودار ہوئے ٗ ہرپرندے نے اپنی چونچ اور پنجوں میں کنکریاں تھامی ہوئی تھیں، اور اس لشکرکے عین اوپر پہنچ کر ان پرندوں نے وہ کنکریاں ان پر برسادیں، جس سے وہ تمام لشکر ہاتھیوں سمیت نیست و نابود ہوگیا، اور یوں اللہ نے اپنے گھر کی خود حفاظت فرمائی۔

جس سال مکہ مکرمہ میں یہ واقعہ پیش آیا اسی سال وہاں رسول اللہ ﷺ کی ولادت با سعادت ہوئی۔

[جاری ہے]

متعلقہ خبریں

مقبول ترین

متعلقہ خبریں