رسول اللہ ﷺ کی ولادت با سعادت کے بعد سب سے پہلے آپ ﷺ کی والدہ ماجدہ سیدہ آمنہ نے اپنے لختِ جگر کو چند روز تک خود دودھ پلایا، اس کے بعد کچھ مدت کیلئے ابولہب کی کنیز ثویبہ نے یہ خدمت انجام دی، اور اس کے بعد یہ شرف قبیلہ بنوسعد سے تعلق رکھنے والی حلیمہ سعدیہ کے حصے میں آیا۔
دراصل مکہ کے شرفاء میں یہ رواج تھا کہ وہ اپنے شیر خوار بچوں کو کچھ عرصہ کیلئے ’’بادیہ‘‘ (گاؤں) میں رکھنا پسند کرتے تھے، تاکہ شہر کے آلودہ ماحول سے دور صاف ستھری اور خالص آب و ہوا میں بچے کی صحت پر خوشگوار اثرات مرتب ہوں اور اس کی نشوونما بھی اچھی ہو۔ نیز یہ کہ شہر میں چونکہ بیرونی لوگوں کی بکثرت آمدورفت رہاکرتی ہے، لہٰذا ان کے ساتھ مسلسل اختلاط اور میل جول کی وجہ سے زبان بھی خالص نہیں رہتی اور لب و لہجہ بھی متأثر ہوتا ہے، جبکہ گاؤں والوں کی زبان خالص ہوا کرتی ہے اور اس میں دوسری کسی زبان کی ملاوٹ کا احتمال نہیں ہوتا۔
چنانچہ جن دنوں رسول اللہ ﷺ کی ولادت ہوئی آپ ﷺ کی والدہ ماجدہ نے بھی حسبِ دستور اپنے لختِ جگر کو گاؤں بھیجنے کا ارداہ کیا، اتفاق سے انہی دنوں بادیۂ بنی سعد سے تعلق رکھنے والی کچھ عورتیں بچے گود لینے کی غرض سے شہر مکہ کی جانب روانہ ہوئیں، جن میں حلیمہ سعدیہ بھی تھیں، مکہ پہنچنے کے بعد شہر میں گھوم پھر کر سب ہی عورتوں نے کوئی نہ کوئی شیرخوار بچہ گودلے لیا، جبکہ حلیمہ کو کوئی بچہ نہ مل سکا، البتہ ایک یتیم بچہ تھا جسے کسی عورت نے محض اس وجہ سے اپنانا قبول نہیں کیا تھا کہ اس یتیم بچے کو گود لے کر شاید کوئی معقول معاوضہ اور مالی فائدہ نہ مل سکے… اور پھر یتیم بھی ایسا کہ جس نے باپ کا نام تو سنا ہو… مگر آنکھیں باپ کی صورت دیکھنے کو ترستی ہوں… جس کا باپ اس کی پیدائش سے پہلے ہی اس دنیا سے رخصت ہوچکا…!
حلیمہ کو چونکہ کوئی بچہ نہیں مل سکا تھا اس لئے سوچا کہ خالی ہاتھ واپس جانے سے بہترہے کہ اس یتیم کو ہی قبول کرلیا جائے، چنانچہ بادلِ ناخواستہ اسے گود لے لیا… جس یتیم بچے کو گود لینے پر حلیمہ رنجیدہ و دلبر داشتہ تھیں اور اس چیز کو اپنی ناکامی تصور کر رہی تھیں… انہیں کیا خبر تھی کہ بظاہر تو یہ ناکامی تھی… لیکن ایسی ناکامی پر ہزاروں کامیابیاں قربان ہوجائیں…!
حلیمہ خود بھی لاغر و فاقہ زدہ تھیں … لہٰذا بقول ان کے خود ان کے اپنے شیر خوار بیٹے کو کبھی پیٹ بھر کر دودھ پینا نصیب نہیں ہوا تھا، لیکن اُس وقت جب انہوں نے بنوہاشم کے اس ’’دُرِّیتیم‘‘ کو گود لیا اور پہلی بار اسے اپنا دودھ پلایا تو اس نے خوب سیر ہو کر دودھ پیا اور اس کے بعد دیر تک سوتا رہا، اور تب حلیمہ نے اپنے حقیقی بیٹے کو بھی دودھ پلایا توپہلی بار اس نے بھی خوب پیٹ بھرکر دودھ پیا اور اس کے بعد وہ بھی دیر تک سوتا رہا… یہ بات حلیمہ اور ان کے شوہر (حارث بن عبدالعزیٰ) کیلئے انتہائی حیرت انگیز تھی۔ ان کی ایک بکری اور ایک اونٹنی بھی اس سفر میں ہمراہ تھی، وہ دونوں بھی فاقہ زدہ تھیں اور ان کا دودھ نہ ہونے کے برابر تھا، لیکن اس روز ان دونوں نے بھی خوب زیادہ دودھ دیا، حلیمہ اور ان کے شوہر نے اس روز خوب جی بھر کر دودھ پیا۔
گاؤں سے مکہ شہر کی طرف آتے وقت کیفیت یہ تھی کہ حلیمہ کی گدھی / اونٹنی کمزوری کی وجہ سے سب سے پیچھے پیچھے چل رہی تھی اور حلیمہ کی سہیلیاں بار بار راستے میں رُک کر اس کا انتظار کرتی تھیں… لیکن اب مکہ سے گاؤں کی طرف واپسی کا وقت آیا تو کیفیت یہ ہوئی کہ حلیمہ کی وہی گدھی/اونٹنی اس قدر چست اور تیز رفتار ہوگئی کہ سب سے آگے آگے دوڑنے لگی، جس پر حلیمہ کی سہیلیاں بار بار انہیں پیچھے سے پکارتیں کہ حلیمہ ُرک جاؤ… کچھ ہمارا بھی تو خیال کر لو… اور بار بار پوچھتیں کہ حلیمہ کیا یہ تمہاری وہی گدھی/ اونٹنی ہے…؟ حلیمہ جواب دیتیں کہ ہاں یہ وہی تو ہے… اس پر وہ کہتیں کہ وَاللّہ اِنّ لَھا لَشَأناً … یعنی ’’بخدا آج تواس کی شان ہی نرالی ہے…!‘‘
اسی طرح گاؤں پہنچنے کے بعد ان کی کھیتی باڑی اور غلہ وخوراک وغیرہ … غرضیکہ ہر چیزمیں نہایت تیزی کے ساتھ حیرت انگیز طور پر بہتری اور برکت کے آثار نمایاں ہوتے چلے گئے، خود حلیمہ کی صحت بھی بہت اچھی ہوگئی …جس پر وہ دونوں میاں بیوی انتہائی حیران بھی تھے اور بہت زیادہ خوش بھی، حتیٰ کہ ایک روز حلیمہ کے شوہر نے انہیں کہا: (تَعْلَمِي وَاللّہِ یَا حَلِیمَۃ ! لَقَد أخَذتِ نَسَمَۃً مُبَارَکَۃ…) یعنی: ’’حلیمہ! یقین کرو، بخدا مجھے تو یوں لگتاہے کہ تم یہ جو بچہ لائی ہو یہ انتہائی مبارک ہے…‘‘! اس پر حلیمہ نے برجستہ جواب دیا: (وَاللّہِ اِنِّي لَأرجُو ذَلِکَ) یعنی: ’’بخدامجھے بھی ایسا ہی محسوس ہوتا ہے…‘‘
اور یوں حلیمہ سعدیہ اور ان کے افرادِ خانہ کو اس ’’دُرِیتیم‘‘ کی قدر و قیمت کا مکمل ادراک و احساس ہوا اور وہ اس کی بدولت فیوض و برکات کا اپنی کھلی آنکھوں سے مسلسل مشاہدہ بھی کرتے رہے اور خوب مستفید ومستفیض بھی ہوتے رہے…!
دو سال دیکھتے ہی دیکھتے گذر گئے… حلیمہ کا دل بالکل نہیں چاہتا تھا کہ یہ بچہ ان کی آغوش سے واپس چلا جائے، لیکن مدتِ رضاعت پوری ہوچکی تھی، لہٰذا بادلِ ناخواستہ وہ اسے اس کی والدہ کے پاس مکہ شہر لے گئیں، بچے کی والدہ نے اپنے لختِ جگر کی اتنی اچھی صحت دیکھی تو انتہائی خوش ہوئیں، ماں کی یہ خوشی دیکھ کر حلیمہ نے موقع مناسب سمجھا اور ڈرتے ڈرتے کہا کہ ’’آپ دیکھ رہی ہیں کہ گاؤں کی صاف ستھری فضاء میں بچے کی صحت کتنی عمدہ ہے، لیکن اب مجھے یہ فکرستا رہی ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ اب یہاں شہر میں اس کی صحت خراب ہو جائے… اس لئے میں چاہتی ہوں کہ… اگر آپ اجازت دیں تو میں بچے کو مزید کچھ عرصہ کیلئے واپس اپنے ہمراہ لے جاؤں… بی بی آمنہ دیکھ ہی چکی تھیں کہ بادیۂ بنی سعد میں رہتے ہوئے بچے کی صحت خوب عمدہ ہے اور وہاں کی آب و ہوا اس کو خوب موافق آئی ہے، نیزانہوں نے اپنے لختِ جگر کیلئے حلیمہ کا جب یہ جذبہ اور پیار بھی دیکھا تو وہ مسکرائیں اور مزید کچھ عرصہ کیلئے بچے کولے جانے کی اجازت دے دی۔
حلیمہ اس بچے (رسول اللہ ﷺ) کی واپسی پر بہت خوش تھیں، اور یوں بادیۂ بنی سعد میں مزید تین سال (یعنی کل پانچ سال) گذر گئے، لیکن ایک روز نہایت عجیب واقعہ پیش آیا جس کی وجہ سے حلیمہ انتہائی خوفزدہ اور پریشان ہوگئیں۔ ہوا یہ کہ یہ بچہ ایک روز جب گاؤں کے دوسرے ہم عمر بچوں کے ہمراہ کھیل کود میں مشغول تھا کہ اچانک وہاں کوئی اجنبی نمودار ہوا، اور اس نے بچے کو زمین پر لٹا کر اس کاسینہ چاک کردیا… دوسرے بچوں نے جب یہ منظر دیکھا تو فوراً دوڑتے ہوئے حلیمہ کے گھر پہنچے اور بتایا کہ کسی نے محمد (ﷺ) کو قتل کردیا ہے۔ حلیمہ انتہائی پریشانی کے عالم میں وہاں پہنچیں تو دیکھا کہ گھبراہٹ کی وجہ سے آپ ﷺ کے چہرے کا رنگ قدرے بدلا ہوا ہے۔
درحقیقت وہ اجنبی شخص جبریل امین علیہ السلام تھے جو اللہ کے حکم سے وہاں آئے تھے، انہوں نے رسول اللہ ﷺ کاسینہ چاک کرکے قلبِ مبارک باہر نکالا، اور اس میں سے سیاہ نقطے کی مانند جمے ہوئے خون کا ایک چھوٹا سا ٹکڑا نکال کر یہ کہتے ہوئے پھینک دیا کہ ’’یہ شیطان کاحصہ ہے‘‘ (یعنی اس حصے کو دل سے نکال کر پھینک دیا تاکہ شیطان کبھی آپ ﷺ پر غالب نہ آسکے) پھر آپ ﷺ کے دل کو سونے کی طشتری میں رکھ کر آبِ زمزم سے دھویا، اس میں ایمان وحکمت کا جوہر بھرا، اور پھر اسے اسی طرح جوڑ کر سینے میں اس کے مقام پر رکھ دیا۔ [۱] دراصل یہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی طرف سے اپنے حبیب ﷺ کیلئے ایک قسم کا روحانی آپریشن اور سامانِ عصمت تھا۔
اس حادثہ کی وجہ سے حلیمہ سعدیہ بہت زیادہ گھبراگئیں، اور آپ ﷺ کی سلامتی کو مدِنظر رکھتے ہوئے چند روز بعد آپ ﷺ کو مکہ شہر میں آپ ﷺ کی والدہ ماجدہ کے پاس چھوڑ آئیں۔
[۱] ملاحظہ ہوحدیث: انّ رسول اللّہ ﷺ أتاہ جبریل و ھو یلعب مع الغلمان ، فصرعہ فشقّ عن قلبہٖ فاستخرجہ … (مسلم:۲۴۰،کتاب الایمان)۔
[جاری ہے]