بادیۂ بنی سعد میں تقریباً پانچ سال گذارنے کے بعد آپ ﷺ اپنی والدہ کے سایۂ شفقت میں واپس پہنچ گئے۔ جب چھ سال کے ہوئے تو والدہ نے اپنے شوہرِ نامدار یعنی عبداللہ بن عبدالمطلب سے خلوص و وفاء کے اظہارکے طور پر مدینہ کا سفر کیا، اس سفر میں کمسن بیٹے (یعنی آپ ﷺ) کو بھی یہ سوچ کر ہمراہ لیا کہ بیٹے کو باپ کی شکل دیکھنا تو نصیب نہ ہوسکا، کم ازکم اب اسے باپ کی قبر کی زیارت ہی نصیب ہو جائے۔ اس سفرمیں کنیز ام ایمن بھی ہمراہ تھیں، یہ کمسن بچہ اس طویل اورکٹھن سفر میں مناظرِ فطرت کا بغور مطالعہ و مشاہدہ کرتا رہا، اس مختصر قافلے نے مدینہ میں تقریباً ایک ماہ قیام کیا۔ (۱)
آپ ﷺ کی والدہ بی بی آمنہ مدینہ میں تقریباً ایک ماہ قیام کے بعد جب مکہ کی طرف واپس روانہ ہوئیں تو راستے میں انتہائی تند و تیز اور گرم صحرائی ہواؤں نے آلیا، جس کی وجہ سے شدید بیمار پڑگئیں، راستے میں علاج کا کوئی انتظام تھا اور نہ ہی راحت و آرام کا کوئی بندوبست… چند روز کی اس علالت کے بعد آخر مدینہ اور مکہ درمیان ’’اَبواء‘‘ نامی مقام پر اس جہانِ فانی سے کوچ کر گئیں…! اور انہیں اسی مقام پر ہی دفن کردیا گیا۔
کمسن بچے نے اپنی معصوم آنکھوں سے ماں کو یوں پردیس میں نزع اور موت کی کشمکش سے گذرتے دیکھا… جس سے اس کا گدازِ قلب مزید بڑھ گیا۔
اُمِ ایمن جو اس سفرمیں ہمراہ تھیں ٗپردیس میں بی بی آمنہ کی علالت اور پھر وفات کے بعد اس کمسن بچے کو ہمراہ لئے ہوئے واپس مکہ پہنچیں اور وہاں اسے اس کے دادا عبدالمطلب کے حوالے کردیا… یہ بچہ اس سفر کیلئے ماں کی انگلی تھامے ہوئے جب گھر سے روانہ ہوا تھا تب سر پر باپ کاسایہ نہ تھا… اور اب اس طویل اور تھکا دینے والے سفر کے بعد جب واپس مکہ میں اپنے گھر پہنچا تو کیفیت یہ تھی کہ ماں کی ممتا سے بھی محروم ہوچکا تھا…!
یوں ہمارے پیارے رسول ﷺ اپنی پیاری ماں کی وفات کے بعد اب اپنے دادا محترم یعنی جناب عبدالمطلب کی کفالت میں آگئے، اُس وقت آپ ﷺ کی عمر مبارک چھ سال تین ماہ اور دس دن تھی۔ (۲)
دادا نے جب اپنے اس یتیم پوتے کو اپنے دامنِ کفالت و تربیت میں لیا تو جی بھر کر اسے پیار دیا، اسے اپنی جان سے بھی زیادہ عزیز رکھا، اور اپنے بچوں سے بھی بڑھ کر اس کے ساتھ ہمیشہ لاڈ اور پیار کیا، وہ آپ ﷺ کو ہمیشہ اپنے ساتھ بٹھا کر کھانا کھلاتے، دن بھر آپ ﷺ کو اپنے ساتھ ہی رکھتے، اور رات کو جب آپ ﷺ سوجاتے تو وہ بار بار اٹھ کر آپ ﷺ کی خبر گیری کیا کرتے۔
عبدالمطلب چونکہ اپنے قبیلہ کے سردار ہونے کے علاوہ متولیٔ کعبہ بھی تھے اس لئے کعبۃ اللہ کے قریب ان کیلئے خاص مسند بچھائی جاتی تھی جس پر کبھی کسی کو بیٹھنے کی جرأت نہ ہوتی، یہاں تک کہ ان کے اپنے بیٹے بھی جب وہاں آتے تو اس مسندکے آس پاس بیٹھ جاتے… مگر آپ ﷺ کو عبدالمطلب ہمیشہ اس مسندِ خاص پر اپنے ساتھ ہی بٹھاتے، اگر کبھی کوئی آپ ﷺ کو وہاں سے اٹھانے کی کوشش کرتا تو عبدالمطلب یوں کہتے: دَعُوا اِبنِي ! فَوَاللّہِ اِنَّ لَہٗ لَشَأناً… یعنی: ’’میرے بیٹے کو یہیں بیٹھا رہنے دو، کیونکہ اللہ کی قسم اس کی تو شان بڑی ہی نرالی ہے…‘‘، اور ساتھ ہی فرطِ محبت سے آپ ﷺ کی پشت پر ہاتھ پھیرتے اور آپ ﷺ کے اس اندازِ شاہانہ اور استغناء کو دیکھ کر خوش ہوا کرتے۔
لیکن آپ ﷺ دادا کی اس شفقت سے بھی جلد ہی محروم ہوگئے جب بیاسی سال کی عمر پا کر یہ شفیق و مہربان دادا بھی راہیٔ ملکِ عدم ہوگئے، اور مکہ مکرمہ میں محلہ حجون میں دفن ہوئے۔
جب ان کا جنازہ اٹھا تو آپ ﷺ بھی ساتھ تھے، شدتِ غم اور فرطِ محبت سے اُس وقت آپ ﷺ جنازے کے ہمراہ روتے جا رہے تھے…!
اُس وقت آپ ﷺ کی عمر مبارک صرف آٹھ سال دو ماہ اور دس دن تھی۔(۳)
رسول اللہ ﷺ کے دادا محترم عبدالمطلب نے وفات سے قبل وصیت کی تھی کہ ان کے بعد آپ ﷺ کی کفالت و تربیت آپ ﷺ کے چچا ابوطالب کے ذمہ ہوگی، چنانچہ ابوطالب نے اس عظیم ذمہ داری کوبہت ہی احسن طریقے سے تادمِ آخر نبھایا، آپ ﷺ سے وہ اس قدر محبت رکھتے تھے کہ آپ ﷺ کو ہمیشہ اپنی اولاد سے بڑھ کر چاہا اور اپنے بچوں پر مقدم رکھا، جب سوتے تو آپ ﷺ کو ساتھ لے کر سوتے، اور جب باہر جاتے تو آپ ﷺ کو ساتھ لے کر جاتے۔
یوں زندگی کے دن گذرتے رہے… وقت کا پہیہ چلتا رہا… اور آپ ﷺ ابوطالب کی زیرِ سرپرستی بچپن اور کم سنی کی حدود سے گذرنے کے بعد اب لڑکپن کی عمر میں داخل ہوگئے اور اب کچھ ہوش سنبھالا تو محسوس کیا کہ چونکہ آپ ﷺ کے مشفق ومحسن چچا قلیل المال اور کثیر العیال ہیں ٗ لہٰذا تلاشِ معاش کے سلسلہ میں ان کا ہاتھ بٹانا چاہئے۔ چنانچہ اس جذبے کے تحت آپ ﷺ نے اس دور میں بکریاں بھی چرائیں اور محنت و مشقت بھی کی۔(۴)
[جاری ہے]
(۱)آپﷺ جب بعدمیں مکہ سے ہجرت کرکے مدینہ پہنچے اوروہاں مستقل قیام کیا ٗتب ایک روزآپؐ جب بنونجارکے ایک محلے سے گذررہے تھے آپؐکی نگاہ اس مکان پرپڑی جہاں آپؐ نے بچپن میں اپنی والدہ ماجدہ کے ہمراہ سفرِمدینہ کے موقع پرقیام کیاتھا،اتناعرصہ گذرجانے کے باوجودآپؐ نے اس مکان کوپہچان لیا،اورپھرسن آٹھ ہجری میں فتحِ مکہ کی غرض سے مدینہ سے مکہ کی جانب سفرکے دوران راستے میں ابواء نامی مقام پرآپؐاپنی والدہ کی قبرپربھی گئے ،اوروہاں خوب روئے،جیساکہ حدیث کے الفاظ ہیں زارَ النّبِيّﷺ قبرَ أمِّہٖ فَبَکَیٰ وَ أبکَیٰ مَن حَولَہٗ …’’یعنی آپؐ نے اپنی والدہ کی قبرکی زیارت کی اورتب آپؐ خودبھی روئے اوردوسروں کوبھی رلایا…‘‘(مسلم:۹۷۶،کتاب الجنائز)۔
(۲) الفصول فی سیرۃ الرسول ﷺ،از: ابن کثیر،صفحہ:۹۳۔
(۳) البدایۃوالنہایۃلابن کثیر،وغیرہ۔
(۴)یہاں یہ تذکرہ بھی ہوجائے کہ ابوطالب کی معاشی تنگ دستی کی بڑی وجہ یہ تھی کہ وہ متولیٔ کعبہ بھی تھے ،حجاج کی خدمت ٗ دیکھ بھال اورمہمان نوازی انہی کے ذمہ تھی ،جسے اس دورکے رواج کے مطابق وہ اپنے لئے بڑافخرسمجھتے تھے اوراس راہ میں بڑی فراخدلی کے ساتھ اپنامال خرچ کیاکرتے تھے۔