اتوار, دسمبر 22, 2024

مُحـرم کے مہینے میں نـکاح، کپـڑے بدلـنا، خوشـی وغیـرہ کـرنا ناجائـز

ہمارے معاشرے میں سوچ ھے کہ:

* مُحرم کا مہینہ چونکہ غم کا مہینہ ہوتا ھے اور نکاح و بیاہ چونکہ خوشی کی رسم ھے تو اسی وجہ سے اس مہینے میں نکاح کرنا جائز نہیں ھے
* محرم کے پہلے دس دنوں میں کسی طرح کی خوشی منانا درست نہیں
* محرم کے پہلے دس دن کپڑے نہیں بدلنے چاہیے
* محرم میں کوئی نیا کپڑا زیب تن نہیں کرنا چاہیے
* کسی خوشی کی مبارکباد دینا جائز نہیں
* کسی خوشی کی تقریب میں شریک ہونا حرام ھے
* رنگین کپڑے پہننا خلاف ادب ھے
* زیادہ بات کرنا درست نہیں
* نکاح کی تقریب میں جانا بھی جائز نہیں
وغیرہ۔۔۔وغیرہ

یہ سب ایک غلط سوچ ہیں

اَصل:-

( انتباہ :- اس تحریر کا مقصد کسی جماعت یا فرقے کے نظریات کی بے امتیازی کرنا یا کسی کی دل آزاری کرنا ہرگز نہیں ھے بلکہ ہر شخص کو اس تحریر کو کچھ لمحے کے لیے اپنی ذہنی کسوٹی پر پرکھ کر مکمل پڑھنا چاہیے)

ان تمام خرافات کی اصل ایک مخصوص فرقے سے ھے، جو اپنے عقائد کے مطابق ماہ محرم کو غم کا مہینہ سمجھتی ھے۔ مگر ستم یہ ھے کہ ان کو بھی یہ معلوم نہیں کہ ان کے ان عقائد کی اصل کیا ھے۔

☆ شاہ اسماعیل صفوی:-
سب سے پہلے یہ خرافات پھیلانے اور ماہِ محرم میں سوگ کی ابتدا کرنے والا شخص شاہ اسماعیل صفوی (۹۰۷ تا ۹۳۰ ہجری) ھے۔
"شاہ اسماعیل صفوی نے ایک مخصوص مذہب کی ترویجی مہم اور ذہن سازی کے لیے بالکل اسی طرح "مجالس شہادتِ حسین رضی الله ﷻ” منعقد کیں، جیسے آج کل کی جاتی ہیں، سب سے پہلے ان محفلوں کو بنی بَوَیہ نے بغداد میں چوتھی صدی ہجری میں شروع کیا تھا، لیکن بنی بویہ کی حکومت ختم ہونے کے بعد یہ مجالس بھی ختم ہوگئیں، اس کے بعد شاہ اسماعیل صفوی نے آکر دوبارہ نئے جذبے سے ان مجالس کو شروع کیا، اور اس میں عزاء داری کا بھی اضافہ شاہ اسماعیل صفوی نے کیا، جس کی وجہ سے دلوں میں ان مجالس کا خوب اثر رچ بس گیا، اور یہ کہنا بھی بعید از حقیقت نہیں ہوگا کہ : ایران میں اُس مذہب کے انتشار کا سبب بھی یہی شخص تھا؛ کیونکہ ان مجالس میں رونا دھونا ہوتا، آل بیت کے لئے غم کا اظہار کیا جاتا اور طبلے بجائے جاتےتھے۔ ان تمام چیزوں کے جمع ہونے سے اس مذہب کے نظریات کی دل پر مؤثر ضرب لگتی تھی”۔

(ملاحظہ ہو:- لمحات اجتماعية من تاريخ العراق – از: ڈاکٹر علی وردی)

☆ غم و سوگ کا مہینہ:
لوگوں کی سوچ ھے کہ مُحرم میں آپ ﷺ کے پیارے نواسے اور اہل بیت کو شہادت نصیب ہوئی تھی تو وہ واقعہ غم کا ھے اسی لیے غم کے موقع پر نکاح جیسی پر مسرت تقریب کو کرنا حرام ھے۔ کچھ لوگ جواز دیتے ہیں اگر آپ کے قریبی یعنی والد، والدہ بیٹا، بہن، بیوی یا کسی کی شہادت ہو جائے تو کیا آپ اس دن نکاح کرنا پسند کریں گے۔

¤ پہلی بات:
پہلی بات تو سمجھیں کہ ہر سال اسی دن کو غم و سوگ کے لیے مخصوص کر دینا اسلام کی کس تعلیم کا حاصل ھے؟ جبکہ سوگ تو فقط تین دن جائز ھے (مفہوم الحدیث)۔

¤ دوسری بات:
اس مہینے میں نکاح سے روکنے والے اگر اس بنیاد پر نکاح سے روکتے ہیں کہ یہ غم اور سوگ کا مہینہ ھے لہٰذا اس مہینے میں خوشی نہیں منانی چاہیے، کیوں؟ اس لیے کہ اس مہینے میں نواسۂ رسول سیدنا حسینؓ اور ان کے خاندان کے چھوٹوں اور بڑوں کو شہید کر دیا گیا تھا، ان کے ساتھ اظہار ہمدردی کے لیے غم منانا، سوگ کرنا اور ہر خوشی والے کام سے گریز کرنا ضروری ھے۔ یہ احکامات دینیہ سے ناواقفیت کی علامت ھے؛ اس لیے کہ ’’شہادت‘‘ جیسی نعمتِ بے بہا کسی بھی طور پر غم کی چیز نہیں ھے، یہ تو با سعادت چیز ھے۔ یہاں سوچنا تو یہ ھے کہ ہمیں اس بارے میں شریعت کی طرف سے کیا راہنمائی ملتی ھے؟ تعلیماتِ نبویہ سے تو یہ سبق ملتا ہے کہ شہادت کا حصول تو بے انتہا سعادت کی بات ھے۔

اِضافی:-

محرم الحرام اِسلامی سال کا پہلا مہینہ ھے۔ غلط و بے بنیاد عقائد کے اثراتِ بد کی وجہ سے مسلمانوں میں اس مہینے میں نکاح جیسے مسنون عمل کو معیوب سمجھا جاتا ھے۔ اس مہینے میں نکاح نہ کرنا اگر اس وجہ سے ھے کہ رسول الله ﷺ کے نواسے حضرت حسین رضی الله عنہ کی شہادت ہوئی ھے تو پھر آپ ﷺ کے باقی نواسوں، نواسیوں، چار بیٹیوں حضرت زینب، حضرت رقیہ، حضرت ام کلثوم، حضرت فاطمہ رضی الله ﷻ عنہم، تین دامادوں؛ حضرت ابو العاص، حضرت عثمان غنی، حضرت علی المرتضیٰ رضی الله ﷻ عنہم، تین بیٹوں حضرت قاسم، حضرت عبداللہ، حضرت ابراہیم رضی اللہ عنہم، آپ کی تمام ازواج مطہرات امہات المومنین رضی الله ﷻ عنہم اور خود آپ ﷺ کے وفات کے مہینوں میں بھی نکاح نہیں کرنا چاہیے اگر ان کی وفات کے مہینوں میں نکاح کرنا معیوب نہیں اور یقیناً نہیں تو پھر صرف ایک نواسے کی وجہ سے محرم الحرام میں کیسے معیوب ہو سکتا ھے۔

○ آپ ﷺ کا اظہار غم:
رسول الله ﷺ کے ایک نواسے عبداللہ بن عثمان رضی اللہ عنہم، تین بیٹیوں زینب، رقیہ، ام کلثوم، دو بیویوں حضرت خدیجہ بنت خویلد رضی اللہ عنہا اور حضرت زینب بنت خزیمہ رضی اللہ عنہا اور آپ ﷺ کے تینوں بیٹوں کا انتقال آپ کی دنیاوی حیات مبارکہ میں ہی ہو گیا تھا۔ مگر آپ ﷺ نے آئندہ سالوں میں ان کی وفات کے مہینوں میں سوگ منانا تو در کنار ان کی وفات کے موقع پر آنسو بہانے کے سوا غم کے اظہار کی کوئی اور صورت اختیار نہیں فرمائی یہاں تک کہ آپ ﷺ نے اپنے محترم چچا حضرت حمزہ رضی الله تعالیٰ عنہ کے شہادت کے اگلے سال اسی شہادت کے مہینے یعنی شوال المکرم میں ام المومنین ام سلمیٰ رضی اللہ عنہا سے نکاح فرمایا۔ آپ ﷺ کی اپنی بیٹی حضرت زینب رضی الله تعالیٰ عنہ کو آپ ﷺ کی حیات مبارکہ میں ہی شہادت نصیب ہوئی مگر کیا اس دن کو غم یا سوگ کا مہینہ بنا کر ہر سال اسی دن ہر قسم کی خوشی سے احتراز کر دیا گیا؟

کیا جس دن رسول الله ﷻ ﷺ کا وصال ہوا وہ دن امت کے لیے سب سے غمگین دن نہیں ھے؟! تو پھر مکمل ماہِ ربیع الاول میں شادی کرنا منع کیوں نہیں کرتے؟! یا اس ماہ میں شادی بیاہ کی حرمت یا کراہت صحابہ کرام سے منقول کیوں نہیں ھے؟ یا رسول ﷺ کی آل و اولاد اور ان کے بعد آنے والے علمائے کرام سے منقول کیوں نہیں ھے؟!

☆ مشقت:
اگر ہمارا یہی حال رہا کہ جس دن بھی کوئی اِسلامی شخصیت یا اہل بیت کا کوئی فرد فوت ہو یا انہیں شہید کیا گیا ہو، ہم ہر سال اس غم کو تازہ کرنے لگ جائیں، تو ہمارے لئے خوشی اور مسرت کا کوئی دن باقی نہیں رہے گا، سارا سال غم و سوگ میں گزر جائے گا اور لوگوں کو ناقابل برداشت حد تک مشقت اٹھانی پڑے گی۔

شہادت منحوس چیز:-
نبی پاک ﷺ کے اہل خانہ کے افراد کو ماہ محرم میں شہادت نصیب ہوئی اور جیسے دیکھنے میں آتا ھے کہ کچھ مخصوص لوگ ماتم، گریہ وزاری، نوحہ کرتے اور سر پیٹتے ہیں اور ماہ محرم میں ہر خوشی سے بیزاری، نکاح کو ناجائز اور حسب معمول زندگی کو کہرام بنا دیتے ہیں کیا یہ لوگ شہادت کو بہت بُری اور منحوس چیز سمجھتے ہیں؟ جبکہ شہادت کی تمنا ہمارے حضرت محمد ﷺ نے خود کی۔ یہ گہری سوچنے کی بات ھے۔

حاصلِ کلام:-

محسوس ہو رہا ھے کہ ہم سادہ لوح مسلمان اہل باطل (شاہ اسماعیل صفوی) کے منفی پروپیگنڈے اور غلط نظریات سے اس قدر متاثر ہو چکے ہیں کہ ہم نے اس مبارک مہینے میں مسنون عمل کو عملاً چھوڑ دیا ھے۔ ایسے حالات میں یہ بات اور بھی زیادہ ضروری ہو جاتی ھے کہ ہم اس باطل رسم کی عملی تردید کریں اور اہل باطل کی خلافِ شریعت روایت کو توڑتے ہوئے اس مبارک مہینے میں نکاح کے مسنون عمل کو زندہ کریں، خوشی کی تقریبات کریں بھی اور ان میں شریک بھی ہوں، الغرض ماہ محرم کو سوگ کا مہینہ خیال کرنا اور ان میں شادی بیاہ کو برا جاننا، یا اس سے کسی اور طرح کی بد شگونی لینا کسی طرح بھی جائز نہیں ھے اور یہ تمام باتیں اسلام کے مزاج کے خلاف ہیں۔ خود بھی بچیں اور دوسروں کو پیار و اخلاق سے دلائل سے سمجھانے کی کوشش کیجئے۔، اور ان کے لیے ہدایت کی دعا بھی کیجئے۔ الله ﷻ ہمیں رسول الله ﷺ کی تعلیمات کے مطابق عمل کرنے والا بنا دیں۔ ۔ ۔آمین!

متعلقہ خبریں

مقبول ترین

متعلقہ خبریں