پاکستانی عدلیہ میں چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے مختصر دور میں اہم اقدامات سامنے آئے ہیں۔ ان اقدامات نے عدلیہ کی تاریخ میں منفرد مقام حاصل کیا اور پاکستانی عوام کو کئی جرأت مندانہ فیصلے دیکھنے کو ملے۔ یہاں ان کے چند نمایاں کارنامے مختصر انداز میں پیش کیے گئے ہیں۔
چیف جسٹس عیسیٰ نے پرویز مشرف کی اپیل، ان کے انتقال کے بعد بھی سماعت کے لیے مقرر کی۔ انہوں نے مشرف کو سزا دے کر اس کے غداری کے فیصلے کو مزید مستحکم کیا۔
پاکستان کی عدلیہ میں پہلی بار ایک سٹنگ جج، مظاہر نقوی کو کرپشن کی بنیاد پر عہدے سے برطرف کیا گیا۔ اس اقدام سے عدلیہ کے احتساب کے عمل میں اہم سنگِ میل قائم ہوا۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے شوکت صدیقی کے کیس کو نہ صرف سماعت کے لیے مقرر کیا بلکہ ان کی بحالی کا بھی فیصلہ دیا۔ اس فیصلے سے عدلیہ میں انصاف کی نئی مثال قائم کی گئی۔
چیف جسٹس نے سپریم کورٹ کی کارروائیوں کو براہِ راست نشر کرنے کا فیصلہ کیا، جس سے شفافیت کو فروغ ملا۔ ماضی میں ایسا فیصلہ کرنے میں ہچکچاہٹ کا سامنا تھا۔
پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ جیسے قانون کی توثیق کرکے اپنے اختیارات کو محدود کیا اور پارلیمنٹ کے قانون سازی کے حق کو تسلیم کیا۔
چیف جسٹس قاضی نے سابق چیف جسٹس ثاقب نثاری کے سیاستدانوں کو تاحیات نااہل قرار دینے کے فیصلے کو واپس لے کر انصاف کی راہیں ہموار کیں۔
انہوں نے سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کے عدالتی قتل کو غیر منصفانہ قرار دیا اور تاریخ کے ریکارڈ کو درست کیا۔
فیض آباد دھرنا کیس پر عمل درآمد کو یقینی بنایا، جس میں فیصلے کے ذریعے ایک اہم شخصیت کو انصاف کے کٹہرے میں لایا گیا۔
انہوں نے پی ڈی ایم کی حکومت کو انتخابات کرانے پر مجبور کیا، جو کہ اس سے پہلے ممکن نہ ہو سکا تھا۔
پی ٹی آئی کے بلاک کیس میں آئین و قانون کے مطابق فیصلہ کرکے ایک نئی مثال قائم کی۔
انہوں نے مبارک ثانی کیس میں اپنی غلطی کو قبول کرتے ہوئے علماء سے رہنمائی لی اور اس معاملے کو درست کیا۔
آرٹیکل 63-اے کے حوالے سے ثاقب نثاری گروپ کے فیصلے کو واپس لیا اور آئین کی اصل روح کو بحال کیا۔
چیف جسٹس عیسیٰ نے اپنے اور اپنی اہلیہ کے اثاثے رضاکارانہ طور پر سپریم کورٹ کی ویب سائٹ پر ظاہر کیے، نہ کوئی پلاٹ لیا، نہ گاڑی اور نہ کوئی پروٹوکول۔
ان تمام اقدامات سے یہ واضح ہوتا ہے کہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا مختصر عرصے میں عدلیہ میں ایک منفرد کردار رہا ہے۔ ان کی جدوجہد سے انصاف کے عمل میں شفافیت اور قانون کی بالادستی کو فروغ ملا ہے۔