حالیہ کشیدگی میں، اسرائیل نے ایران پر 100 ایف-35 اور ایف-16 طیاروں کی مدد سے ایک بڑے فضائی حملے کا آغاز کیا، تاکہ ایران کے خلاف اپنا موقف مزید سخت ظاہر کیا جا سکے۔ تاہم، مختلف عالمی نیوز ایجنسیز کی رپورٹس کے مطابق، روس کے جدید فضائی دفاعی نظام نے اس حملے کو ناکام بنا دیا۔
اس صورتحال کا جائزہ لیتے ہوئے، یہ سمجھنا ضروری ہے کہ اگر روس کے دفاعی نظام نے واقعی اس بڑے حملے کو روکنے کی صلاحیت دکھائی ہے تو ایف-35 اور ایف-16 طیارے گرانا زیادہ مشکل نہیں ہونا چاہیے۔ لبنان میں ناکامی کے بعد اسرائیل دیگر ممالک سے مدد مانگتا رہا کہ اسے کسی ویران علاقے میں ایران پر حملے کا موقع دیا جائے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ بعض مسلم ممالک کے رہنما بھی مبینہ طور پر ان سازشوں کا حصہ بنتے دکھائی دیتے ہیں۔ نتیجتاً، ایک چھوٹے حملے سے اسرائیل نے اپنی عوام کے سامنے اپنی تسکین کر لی۔
اسرائیل کی جانب سے بعد میں دیے گئے پیغام سے یہ تجزیہ مزید مضبوط ہوا کہ اسرائیل نے ایران کو دوبارہ حملے سے باز رہنے کی وارننگ دی ہے، بصورتِ دیگر جھڑپ کا خدشہ ظاہر کیا ہے۔ تاہم، ایران اور اس کے اتحادیوں نے ثابت قدمی دکھائی ہے، جبکہ اسرائیل اپنی بالادستی برقرار رکھنے کی جدوجہد کر رہا ہے۔
اسی دوران خبریں ہیں کہ نیٹو افواج بھی ایران پر حملے میں اسرائیل کی ممکنہ حمایت کے لیے تیار ہیں۔ اس مبینہ حملے اور ڈیل میں بی آر آئی سی ایس (BRICS) اتحاد کا کردار بھی سامنے آ رہا ہے۔ ولادیمیر پیوٹن، جو اس وقت بی آر آئی سی ایس کے سربراہ ہیں، نے کھلے عام ایران کے دفاع میں عملی جنگ میں شامل ہونے کا عندیہ دیا ہے، جبکہ چین بھی پہلے سے اس اتحاد کا حصہ ہے۔ اس طرح، یہ اسرائیلی کارروائی ان کے خلاف اتحاد کو مضبوط کرنے کا سبب بن رہی ہے۔
بلا شبہ، ایران نے وقتی طور پر قبلہ اول کو بچا لیا ہے، جو کہ "گریٹر اسرائیل” کے ایجنڈے کو زمین میں دفن کرنے کا ایک اہم قدم ہے۔ اس تناظر میں، مسلم ممالک کے درمیان اتحاد کی ضرورت پہلے سے کہیں زیادہ نمایاں ہو چکی ہے۔ اگر مسلم ممالک یکجہتی کا مظاہرہ کریں تو یہ سمجھا جا رہا ہے کہ اسرائیل کو پسپائی پر مجبور کیا جا سکتا ہے۔ اس دوران، خبریں ہیں کہ BRICS اتحاد اسرائیل کی بڑھتی ہوئی پالیسیوں کے خلاف کسی بھی مسلم ملک کو عسکری اور سیٹلائٹ مدد فراہم کرنے کے لیے تیار ہے۔
اس متحرک عالمی تناظر میں، مسلم اور BRICS ممالک کے درمیان اتحاد علاقائی مستقبل کے لیے فیصلہ کن ثابت ہو سکتا ہے، جہاں لوگ پائیدار استحکام کی امید کر رہے ہیں۔