معاشرے میں یہ جملہ مشہور کر دیا گیا ھے کہ:
* موسیقی تو روح کی غذا ھے
یہ ایک غلط سوچ ھے
اَصل:-
خوب جان لیجیے کہ یہ جملہ ہمارے اندر کافروں سے آیا ھے جس کا کہنا بھی درست نہیں بلکہ مؤجب گناہ ھے۔ ہندو مذہب ہو یا عیسائیت، نصرانیت ہو یا ملحدیت موسیقی کو چرچ اور مندر میں ایک خاص اہمیت حاصل ھے۔ چونکہ برِصغیر کے مسلمانوں کا زیادہ وقت ہندوؤں کے ساتھ گزرا ھے اس بنا پر مسلمانوں نے ان کی ایک خاص رسم جسے وہ:
* بھجن
* کرتان
* راگ
کہتے ہیں، اسے اپنا لیا جو کہ ہندوؤں کا دھرمی لازمی جز ھے اور "موسیقی روح کی غذا” ہندومت کے عقائد میں سے ایک عقیدہ ھے اسی وجہ سے یہ جملہ مسلمانوں میں عام ہونے لگ گیا جو قدیم زمانے سے آج موجودہ زمانے تک عام فہم مسلمانوں میں پایا جاتا ھے۔ مگر اب تو یہ جملہ مسلمان معاشرے میں بہت زیادہ شہرت اختیار کرتا جا رہا ھے۔
☆ ہندوؤں/سکھوں/بدھمت کا عقیدہ:
ہندو مذہب میں موسیقی کے آلات (بانسری، بین اور تبلا) کو منترا/راگ کے لیے استعمال کرنا ان کے دھرمی فریضہ (پوجا/بھگتی) کا حصہ ھے تاکہ روح کو تسکین حاصل ہو اور عبادت میں دل لگے۔ اس کی تعلیم ان کی مذہبی کتاب "ویداس” سے ملتی ھے۔
(ملاحظہ ہو:- ساماویدا – از: ویداس)
جبکہ سکھمت، بدھمت، جین دھرما، شِنگن (جاپانی دھرم) وغیرہ کے اس دھرمی فریضہ کی اصل ہندو دھرم کے عقائد پر ہی منحصر ھے۔
(ملاحظہ ہو:- منترا – از: وکیپیڈیا)
☆ عیسائیت/نصرانیت کا عقیدہ:
موسیقی کو گرجہ گھر وغیرہ میں بجانے کی شروعات بہت پہلے ہو چکی تھی، موسیقی کو عبادت کا جز سمجھا جاتا تھا اور موسیقی کو عبادت میں مشغول ہونے کے لیے شروع کیا گیا تھا۔ جس کی شروعات ان اسرائیلیوں سے ہوئی جو مصر چھوڑ کر آئے تھے جو کہ بڑھتے بڑھتے دنیا کے یہودیوں اور نصرانیوں میں پھیل گیا جس کے مختلف نام ہیں:
* کنٹاٹاس
* چروسز
* اوراٹوریو
۱۸۱۸ء میں اپنی نظم میں مشہور تاریخی عیسائی شاعر "ارتھر شاپنہاور” کہتا ھے کہ:
روح کی خوراک موسیقی ھے
(ملاحظہ ہو:- The World as Will and Representation, 1818 by Arthur Schopenhauer)
جہاں تک بات ھے دنیا میں اس جملے کا عام ہو جانا تو اس کی تاریخ بہت خوفناک اور دل دہلانے والی ھے، ملاحظہ ہو:-
☆ موجودہ موسیقی کی خوفناک تاریخ:
❞وہ کرو جس کا تمھارا دل کرے، اور اپنے قوانین خود بناؤ❝
کیا آپ کو معلوم ھے کہ یہ نظریہ کہاں سے آیا؟؟۔ ۔ ۔
اس نظریہ کی شروعات ایک سب سے بد ترین اور معیوب انسان نے کی۔ جس کا نام الیئسٹر کراولے (Aleister Crawley) ھے۔ [آپ حضرات اس شخص کے بارے میں ضرور تحقیق کیجیے گا]۔ اس کے کچھ مختصر سیاہ افعال یہاں درج کیے جاتے ہیں۔
¤ تھیلیما (Thelema) مذہب کا بانی
¤ ۔”Book of Law” کا مصنف، جس کے بارے میں اس نے وحی کے ذریعے خدا کی طرف سے بھیجی آسمانی کتاب کی حیثیت کا دعوی کیا ھے
¤ اس کی کتاب کا بنیادی نظریہ
"جو مرضی دل کرے کرو” تھا
¤ اسے برطانوی مواصلاتی ادارے نے "دنیا کا سب سے گھٹیا/برا” انسان کرار دیا ھے
(ملاحظہ ہو:- Master of Darkness – BBC 4 Series)
¤ اس نے موسیقی کا استعمال کر کے شیطانی وسوسے اور شیطانی کلمات لوگوں تک پہنچائے جس کا اثر یہ ہوا کہ یورپ میں لوگ شرابی، زانی، ڈاکو بن گئے حتی کہ بالکل ننگے ہو کر پھرنے میں بھی کوئی شرم محسوس نہ کرتے تھے
¤ اس کے لکھے نظریات کو موسیقاروں نے اپنے گانوں میں استعمال کرنا شروع کیا جو کہ آج تک چل رہا ھے
¤ یہ شخص الیومیناتی یا میسن جیسی تحریک کا حصہ رہا
☆ اپنی روح شیطان کو بیچنا:-
یہ اپنی روح شیطان کو بیچ ڈالنے کا دعوی کرتا رہا اور آج کے مغربی گلوگاروں میں مشہور زمانہ کچھ گلوگاروں نے اسی کے مذہب کو فروغ دینے کے لیے اپنی روح شیطان کو بیچنے کے دعوے کیے ہیں جن میں سرِ فہرست ہیں:-
۔ Eminem
۔ Lady Gaga
۔ Rihanna
۔ Katy Perry
۔ Jonas Brothers
۔ David Browie
۔ Jimmy Page
۔ Frank Zappa
(ملاحظہ ہو:- Reality of Aleister Crowley – by MO TO Mohammad )
¤ اس شخص کی تحریک آج تک چل رہی ھے اور اس کے دعوے کے مطابق اس وقت تک چلے گی، جب تک تمام اس کے سایہ میں نا آ جائیں۔ مگر اس کے پیروکار وہی ہوں گے جو اپنی روح کو شیطان کے ہاں بیچ ڈالیں گے جس کا مطلب یہ کہ موسیقی کو بہت سنیں گے، خصوصاً Rock Band Music، جو مسلسل سنتا ھے اس کا دل ہر اس کام کے کرنے کو کرتا ھے جس کی تفصیل Aleister Crawley نے اپنی کتاب میں لکھی۔
(ملاحظہ ہو:- Liber AL vel Legis – by Aleister Crowley)
اِضافی:-
لوگ موسیقی کو ایک عام تفریح کا ذریعہ سمجھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ "یہ موسیقی صرف تفریح ہی تو ھے اس میں برا کیا”۔ میں اس وقت دین اسلام کی شریعت کے تحت موسیقی کی حرمت کی بات نہ بھی کروں مگر پھر ںھی یاد رکھیں ہمارے کان جو کچھ بار بار سنتے ہیں اس کا ہمارے دماغ اور سوچ پر گہرا اثر پڑتا ھے جو کہ لاشعور میں ایک پیغام کی شکل میں بیٹھ جاتا ھے جو کسی نا کسی طرح انسان کو متاثر ضرور کرتا ھے۔ موسیقی اور اس میں بولے جانے والے الفاظ شیطانی باتوں پر منحصر ہوتے ہیں جو کہ انسان کو ہر غلط کام جیسے حرام کی طرف رغبت بڑھاتے ہیں اور مرد کی نامحرم عورت کی جانب کشش بڑھاتے ہیں۔
بچے بیوقوف نہیں ہیں، ہر بات کو بہت غور و فکر سے دماغوں میں بیٹھاتے ہیں اور افسوس کہ وہ سنتِ نبوی ﷺ سے دور جا رہے ہیں اور موسیقار و گلوگار کو اپنی مثالی شخصیت سمجھتے ہیں کہ فلاں کا تو میں بہت بڑا فین ہوں۔ گھر، گاڑی، کالج، یہاں تک کہ غسل خانے میں بھی لوگ موسیقی سنتے ہیں۔ اگر خود سے پیار نہیں، خود کو نہیں تو اپنے بچوں کو تو دجال کے فتنے سے بچانے کی فکر کر لیں۔
▪ حدیث کا مفہوم ھے کہ
"مجھے دنیا میں موسیقی (بجانے) کے آلات کو توڑنے کیلئے بھیجا گیا ھے”
ایک اور جگہ موسیقی کو شیطان کی آواز بھی کہا گیا ھے۔ جسے Aleister Crowley اپنی کتاب میں بھی لکھ چکا ھے۔
حاصلِ کلام:-
آج کل کی موسیقی دجال کے آنے کی ایک تیاری ھے اور مغرب اسی کی طرف رواں ھے۔ مسلمانوں کو ابھی یہ بات سمجھ نہیں آ رہی مگر عقلمند کے لیے اشارہ ہی کافی ھے۔ شریعتِ میں موسیقی کو "شیطان کی آواز” کہا گیا ھے اور موسیقی بجانا ناجائز ھے تو سننا اور اسے اپنے دل و دماغ کی غذا بنانا کیا جائز فعل ہو گا۔۔؟!! موسیقی انسان کو آپے سے باہر کر دیتی ھے اور انسان کا اپنے اوپر جبر نہیں رہتا ( آزما کر دیکھ لیجئے)، شریعت کی جانب سے ایک ناجائز کردہ شے کو "روح کی غذا” کہنا مسلمانوں کا فعل نہیں ہونا چاہئے بلکہ یہ تو کفار اور مسلمان دشمن تحریکات کا شعار ھے۔ یہ ایک مخصوص منصوبے کے تحت دنیا میں اس جملہ کو پھیلایا جا رہا ھے۔ دجال کے آنے کے لیے راہ ہموار کی جا رہی ھے اور موسیقی اور بدکار عورتوں کو اس کے لیے استعمال کیا جا رہا ھے۔ انسان کی نفسیات کے ساتھ کھیلا جا رہا ھے مگر مسلمان دجال کے فتنے سے بچنے کی دعائیں کرتے ہیں اور فقط باتوں میں وقت گزار رہے ہیں مگر عملی طور پر اکثریت دجال کے فتنے سے نپٹنے کی "تیاری” نہیں کر رہی۔ مسلمان ہر اس کام میں لگے ہیں جس کا استعمال دجال اہل ایمان کو توڑنے کے لیے کرے گا۔ اللّٰه ﷻ ہمیں موسیقی سے کراہت اور دشمنانِ اسلام کی سازشوں کو خوب سمجھنے والا بنا دیں۔ ۔ ۔آمین!
درِحقیقت تو اللّٰه ﷻ کا ذکر روح کی غذا ھے