اتوار, دسمبر 22, 2024

Damn, Shit, Hell وغیـرہ

ہمارے معاشرے میں میڈیا کے ذریعے مغرب ممالک کی جو ایک چھاپ لگتی جا رہی ھے اور مسلمانوں میں ان مغربی ممالک کی رغبت اور ان جیسا بول چال اختیار کرنے کی خواہش نے بہت مقامات پر ہماری بول چال کی اخلاقیات کو ہی پامال کر ڈالا ھے۔
انگریزی سیکھنا اچھا فعل ہے مگر جو آپ بول رہے ہیں اس کا مطلب بھی سمجھ کر بولیں۔ ورنہ نامہ اعمال فحش کلامی کے گناہ سے بھرتا چلا جائے گا اور آخرت میں گلے پڑ جائے گا۔

آئیے دیکھیں:

☆ ۔What the/Go to HELL (دوزخ | جہنم | بد دعائیہ گالی):

حدیث ﷺ کا مفہوم ھے:-
مسلمان کو گالی دینا فسق ھے

ایک مسلمان کیلئے اس سے بڑھ کر کیا بد دعا ہو گی کہ جس چیز سے ہمارے نبی پاک ﷺ نے، تمام صحابہ کرام ؓ نے بھی پناہ مانگی، جس سے صلحاء اور صالحین روتے ہوئے چھٹکارے کی دعائیں کرتے ہوں، حتہٰ کہ اللّٰه ﷻ بھی اس سے دور رہنے کا حکم کرتے ہوں اور لوگ اس کو اپنی گفتگو کا بے فکری سے حصہ بنا لیں۔ ۔ ۔ذرا سوچئے!!

☆ ۔SHIT (گوبر | لید | پاخانہ | گالی):

معلوم نہیں لوگوں کو کس چیز نے آمادہ کر ڈالا کہ ایسے الفاظ بولیں اور لوگوں میں یہ لفظ دن بدن عام ہوتا جا رہا ھے۔ اسی لفظ کو اپنی مادری زبان میں بولیں پھر شاید آپ کو اندازہ ہوگا کہ معاشرے میں آپ کی کیا عزت باقی رہ جاتی ھے۔

☆ ۔DAMN (لعنت کرنا | جہنم واصل کرنا | مردود کرنا |گالی):

حدیث ﷺ کا مفہوم ھے:-
مومن پر لعنت کرنا اسے قتل کرنے کی طرح ھے

مگر اسی لفظ کو لوگوں نے اپنی گفتگو کا حصہ بنایا ہوا ھے۔ لعنت کرنا دوسرے کو برا نھیں بناتا بلکہ آپ کی اپنی شخصیت کو خراب اور آپ کو اللّٰه ﷻ کے سامنے معیار میں گِرا دیتا ھے۔

ایک غَلطی

ہمارے معاشرے میں سنے سنائے الفاظ کو بغیر تحقیق کے اپنی گفتگو کا حصہ بنا لیا جاتا ھے یہ جانے بنا کہ اس کا مطلب کیا ھے، آیا کہ یہ جملہ اسلام دشمنوں کا بنایا گیا تو نہیں، لوگوں کو ہمارے جملے سے تکلیف تو نا ہوگی، ہماری شخصیت پر کیا اثر پڑے گا۔ بس جو جملہ فلم یا گانے سے سیکھ لیا اس کو اپنی زندگی کا حصہ بنا لیا۔

◯ ایک عجیب واقعہ

اس عاجز کو ایک بہت عجیب منظر دیکھنے کو پیش آیا۔ ایک مرتبہ کچھ مرد گلی میں کھڑے گپیں لگا رہے تھے اور مزاح میں ایک دوسرے کو ماں، بہن کی گالیاں دے رہا تھا۔ اس عاجز کو یہ دیکھ کر حیرت ہوئی کہ جس کو گالی دی جا رہی اس میں غیرت ہی نہیں کہ اپنی ماں اور بہن کے بارے میں ایسے الفاظ سن کر کیسے برداشت کر رہا ھے الٹا وہ بھی دو چار گالیاں دے رہا جو ان لڑکوں کے مطابق "دوستوں میں چلتا ھے” تھا۔

حاصل کلام:-

لوگوں کو لگتا ھے کہ یہ الفاظ وہ غصےکا اظہار کرنے کیلئے بول دیتے ہیں بلکہ لوگوں نے ان الفاظ کو تکیہ کلام بنا لیا ھے اور انہیں اس میں کوئی کراہت بھی محسوس نہیں ہوتی۔ لیکن یہی الفاظ کہیں نیک اعمال کو برباد کرنے کا ذریعہ نا بن جائیں۔ لوگوں کو ایسے اعمال ضائع کرنے والے الفاظ بہت معمولی لگ رہے ہیں مگر گناہ جب گناہ لگنا ہی چُھٹ جائے تو وہ انسان کی بد قسمتی کی شروعات ہوتی ھے۔ اللّٰه ﷻ ہم مسلمانوں کو اخلاقیات، معاملات اور گفتگو میں ویسا بنا دیں جیسا وہ چاہتے ہیں۔ ۔ ۔آمین!

متعلقہ خبریں

مقبول ترین

متعلقہ خبریں