پیر, اکتوبر 7, 2024

سید مقاومت۔۔۔ سید حسن نصر اللہ شہید

تین دہائیوں تک صیہونی و مغربی طاقتوں کے سامنے ڈٹے رہنے والے مر دِ مومن

جیو تو غازیوں کی طرح ، مرو تو شہیدوں کی طرح۔۔۔اس جملے کو ایک اور حق کے متوالے ، امت مسلمہ کا درد رکھنے والے ایک مرد ء آہن، ایک بہادر سپہ سالار سید حسن نصر اللہ نے سچ کر دکھایا۔

14 مئی 1948ء سے لے کر اب تک مشرق ِ وسطیٰ میں درپردہ امریکی غیر قانونی قبضہ ریاست اسرائیل نے خطے میں ظلم و بربریت , مسلم نسل کشی اور انسانیت سوز طرز ِعمل کی ایسی تاریخ رقم کی ہے۔ جس پہ انسانیت بھی آنسو بہاتی نظر آتی ہے۔ باقاعدہ ایک مہم کے ذریعہ مسلم نسل کشی کی ابتدا کر دی گئی ہے۔ فلسطین کے قبرستان جوانوں اور بوڑھوں سے ہی نہیں، بلکہ بچوں کی قبروں سے بھر گئے ہیں۔ لاکھوں افراد بے وطن و بے گھر ہو گئے ہیں۔ سال 2024 ء کی ابتدا سے اب تک تباہی کی یہ حالت بنا دی گئی ہے۔ کہ غیر جانبدار ماہرین کے بقول محض انفراسٹرکچر کی دوبارہ بحالی ہی ناممکن نظر آتی ہے۔ اسرائیل کی یہ عالمی دہشت گردی و جارحیت محض فلسطین و غزہ تک ہی محدود نہیں رہی ۔ بلکہ لبنان و ایران، یمن، اُردن اور شام پہ بھی اس کی دہشت گردی و لا قانونیت جاری رہی ہے۔ غیر قانونی اسرائیل کے اس کالے و مکرہ کرتوں کو کبھی درپردہ اور کبھی کھلم کھلا امریکہ کی پشت پناہی حاصل رہی ہے۔ یہاں تک کہ معصوم فلسطینیوں پہ برسائے جانے والے میزائلز و بم تک امیریکی ہوتے ہیں۔
مگر افسوس کہ عالمی انسانی حقوق کے نام نہاد علمبردار ممالک اس پہ خاموش تماشائی نظر آتے ہیں۔ بلکہ اقوام ء متحدہ میں غزہ میں جنگ بندی کی قراردادوں کو بھی بار ہا مسترد کرتے نظر آتے ہیں ۔

مسلمانوں پہ اس ظلم و بربریت کے خلاف حماس اور حزب اللہ جیسی منظم تنظیمیں اپنی مدد آپ کے تحت حقوق ِمسلمین کے لئیے آوازِ حق بلند کر رہی ہیں۔ اور مسلم امہ کے لئیے اپنی قربانیاں پیش کرتی چلی آ رہی ہیں۔

حال ہی میں حماس کے سیاسی ونگ کے سربراہ اسماعیل ہنیہ کو ایران کے دارالحکومت تہران میں نئے ایرانی صدر مسعود پزشکیان کی تقریب حلف برداری میں شرکت کے لیے موجودگی پہ ایک فضائی حملے میں شہید کر دیا گیا۔ جبکہ سابق ایرانی صدر ابراہیم رئیسی کی شہادت بھی ایک معمہ بن کر رہ گئی۔ اور اب 27 ستمبر 2024 کی شب امت ِمسلمہ کے ایک اور درد ِ دل رکھنے والے حزب اللہ کے سپہ سالار حسن نصر اللہ کو 11 اہم ساتھیوں سمیت شہید کر دیا گیا۔

حزب اللہ 1985ء میں باضابطہ طور پر قائم ہونے والی لبنان کی ایک اسلامی سیاسی و عسکری جماعت ہے۔ یہ تنظیم بنیادی طور پر لبنان کے شیعہ مسلمانوں کی نمائندہ جماعت ہے۔ جسے لبنان کی سیاست میں بھی ایک طاقتور جماعت سمجھا جاتا ہے۔ اور اس کے پارلیمان میں نمائندے اور کابینہ میں وزرا شامل ہیں۔ حزب اللہ نے لبنان میں اسرائیلی قبضے کے خلاف مزاحمت کی قیادت کی اور 2000ء میں اسرائیلی افواج کو جنوبی لبنان سے نکالنے اور لبنانی علاقے آزاد کروانے میں کامیاب رہی، جس کے نتیجے میں تنظیم کی مقبولیت میں اضافہ ہوا۔ اور اب بھی یہ تنظیم اسرائیل کی غیر قانونیت و جارحیت کے مقابل کھڑی نظر آتی ہے۔

روایتی عبا اور سیاہ امامے میں ملبوس، حق کے لئیے اٹل اور واضح موقف رکھنے والے پر اثر و پر جوش خطیب و باریش عالم دین 64 سالہ سید حسن نصر اللہ لبنان کے دارالحکومت بیروت کے ایک متوسط علاقے بورجی حمود میں 31 اگست 1960ء میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد محترم کا نام عبدالکریم نصراللہ تھا۔ آپ نے النجاح اور سان الفیل اسکولوں سے ابتدائی تعلیم حاصل کی، جن میں عیسائی طلبہ کی اکثریت تھی۔ 1975ء میں لبنان میں ہونے والی خانہ جنگی کے دوران آپ کا خاندان جنوبی لبنان میں واقع اپنے آبائی گاؤں بسوریہ منتقل ہو گیا۔

اپنی تعلیم جاری رکھتے ہوئے 15 برس کی عمر میں آپ نے لبنان کی نمایاں تحریک ‘امل’ میں شمولیت اختیار کی۔
اسی دوران آپ کی ملاقات مسجد امام جعفر صادق علیہ السلام کے امام سید محمد غراوی سے ہوئی ۔ جن کے مشورے پہ آپ اعلی حوزوی تعلیم کے لئیے نجف اشرف تشریف لے گئے۔ نجف اشرف میں آپ نے قرآن کریم اور سیاست کی تعلیم حاصل کی۔ اور یہیں اپنے تین سالہ قیام کے دوران آپ کی ملاقات لبنانی امل ملیشیا کے رہنما سید عباس موسوی سے ہوئی ۔ جو کہ گہرے تعلق میں بدل گئی۔

1979ء میں لبنان واپسی پہ حسن نصر اللہ نے بعلبک میں قائم مدرسے میں اپنی حوزوی تعلیم جاری رکھنے کیساتھ ساتھ ‘امل’ تحریک میں بھی شمولیت رکھی۔ اور اس تحریک کے نمائندے اور مرکزی سیاسی دفتر کے رکن بنے۔

1982ء میں لبنان پہ اسرائیلی جارحیت کے بعد شہید سید حسن نصر اللہ نے تحریک ء ‘امل’ سے علیحدگی اختیار کی اور سید عباس موسوی و دیگر ساتھیوں سمیت ایک ‘اسلامی امل’ نامی ایک نئی تنظیم کی بنیاد رکھی۔ ‘اسلامی امل’ کو ایرانی انقلابی گارڈز کی کافی حمایت حاصل رہی۔ اور جلد ہی اس تنظیم نے اہم حیثیت و مقبولیت حاصل کرلی۔ بعد ازاں یہی تنظیم 1985ء میں اسرائیل کو ‘ایک مستقل حقیقی خطرہ’ قرار دینے والی جماعت حزب اللہ کے نام سے باضابطہ طور پہ اُبھر کر سامنے ائی۔ جس میں شہید حسن نصر اللہ ہمیشہ کلیدی کردار کے حامل رہے۔

سید حسن نصر اللہ نے بیروت کے علاقے کے نائب سربراہ کا عہدہ سنبھالا اور جلد ہی اس علاقے کے سربراہ بن گئے۔ کچھ عرصے بعد وہ لبنانی حزب اللہ کے ایگزیکٹو سربراہ بن گئے۔ نصراللہ لبنان کی حزب اللہ کی سپریم کونسل کے رکن بھی تھے، جو اس جماعت کی سپریم کمانڈ تھی۔ 1989 میں شہید سید مقاومت بیروت سے ایران کے شہر قم آ گئے اور وہاں اپنی حوزوی تعلیم جاری رکھی۔ 1991ء میں واپس بیروت آئے اور حزب اللہ کی انتظامی سربراہی کرتے ہوئے اپنا آپ اسرائیل کے خلاف مزاحمت کے لئیے وقف کر دیا۔

16 فروری 1992 کواسرائیلی ہوائی حملے میں حزب اللہ کے سیکرٹری جنرل سید عباس موسوی کی شہادت کے بعد سید حسن نصر اللہ محض 35 سال کی عمر میں لبنان میں حزب اللہ کے سیکرٹری جنرل منتخب ہوئے۔ 1997ء میں اسرائیلی حملے میں آپ کے بڑے بیٹے ہادی نصر اللہ شہید ہو گئے۔ مگر آپ نے اسے حزب اللہ کے لئیے جدوجہد کا حصہ قرار دیا۔ اور بلند حوصلے کیساتھ حزب اللہ کی سربراہی کرتے ہوئے تنظیم کو عسکری و سیاسی و مذہبی طور پہ ایک نئی سمت گامزن کیا۔ اور کئی محاذوں پر اسرائیلی فوج کو شکستِ فاش دی۔

شہید سکریٹری جنرل نے اپنے دور میں حزب اللہ کو عسکری طور پہ منظم کیا اور ایک متنوع فوجی ڈھانچہ تیار کیا۔ جو صیہونی قابض افواج کے خلاف مزاحمت کرتے ہوئے کامیاب رہا۔ اور بالآخر 22 سال کے قبضے کے بعد 2000ء میں جنوبی لبنانی علاقوں سے صیہونی قابض فوج کے انخلاء کا باعث بنا۔ 2006ء میں اسرائیل کے ساتھ 33 روزہ جنگ میں حزب اللہ لبنان کی کامیابی کی وجہ آپ کو سید مقاومت”(مزاحمتی بلاک کے سردار) کا لقب دیا گیا۔

2005ء میں لبنان کے وزیر اعظم رفیق حریری کے قتل کے بعد حسن نصر اللّٰہ کا مدبرانہ سیاسی کردار بھی سامنے آیا۔ جب انھوں نے سیاسی دھڑوں کے درمیان ثالث کا کردار نبھایا۔ سید حسن نصر اللہ کی سربراہی میں حزب اللہ صرف مزاحمتی و سیاسی نہیں بلکہ ایک فلاحی و سماجی لبنانی تنظیم بن کے بھی سامنے ائی۔ جس نے لبنانی عوام کی فلاح کے لئیے کئی تعلیمی و صحت کے ادارے قائم کئیے۔

محترم حسن نصر اللہ نے ایرانی لیڈروں اور حماس سے اتحاد کو مضبوط بنایا۔ حزب اللہ نے 7 اکتوبر 2023 ء کو حماس کے اسرائیل پہ حملے کی کھل کر حمایت کی۔ اور اسرائیلی جارحیت کے خلاف مزاحمت جاری رکھی۔

27 ستمبر 2024ء بروز جمعہ کو بیروت کے جنوبی مضافات میں حزب اللہ کے ہیڈکوارٹر پر صیہونی رجیم کے فضائی حملے میں مسلم امہ کے یہ بہادر سپہ سالار اپنے 11 اہم رفقاء جن میں آپ کی بیٹی سیدہ زینب ، سنئیر رہنما علی کرکی، اہم کمانڈر محمد علی اسماعیل، اور ایرانی پاسداران کے ڈپٹی کمانڈر برگیڈیئر جنرل عباس نلفروشان سمیت شہید ہوگئے۔ لبنانی ذرائع کے مطابق اسرائیلی بمباری سے اب تک مزید 700 افراد شہید ہو چکے ہیں۔
سید حسن نصر اللہ کی شہادت سے مسلم امہ ایک دلیر و پر جوش سپہ سالار سے محروم ہو گئی۔ جس سے تمام امہ میں سوگ کی کیفیت پیدا ہو گئی ہے ۔ حماس اور حزب اللہ نے دکھ اور مذمت کا اظہار کرتے ہوئے صیہونی دہشت گردی کے خلاف مزاحمت جاری رکھنے کے عزم کا اعادہ کیا ہے۔

شعلہ بیاں مقرر و مدبرانہ شخصیت اور بااثر رہنما سید حسن نصر اللہ نے مسلمہ امہ کے لئیے ہمشہ ایک واضح اور دلیرانہ موقف اختیار کئیے رکھا۔ آپ نے اپنی تمام تر زندگی مسلم امہ کے لئیے وقف کر دی ۔ آپ تین دہائیوں سے زیادہ عرصہ تک صہیونی و مغربی طاقتوں کے مقابل مجاہدیت و مقاومت کی بے مثال صورت بن کے ڈٹے رہے۔

مسلم امہ اپنے پرجوش و بہادر سپہ سالار کو اور فلسطین کی وہ نسل جو آزاد فلسطین دیکھ سکے گی۔ وہ سید حسن نصر اللہ شہید کو اپنے محسن کے طور پہ ہمیشہ یاد رکھے گی۔
اللہ کریم آپ درجات ہر لمحہ بلند فرمائیں ۔ آمین

متعلقہ خبریں

مقبول ترین

مقامِ زن

آغوشِ ماں

متعلقہ خبریں