کراچی: پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو نے عوام کو وقت پر انصاف کے بنیادی حق کی فراہمی کیلئے عدالتی نظام میں اصلاحات کو ناگزیر قرار دیتے ہوئے اس عزم کا اعادہ کیا ہے کہ وہ آئینی عدالت کے قیام کیلئے ہر ممکن کوشش کریں گے۔ میڈیا سیل بلاول ہائوس سے جاری بیان کے مطابق ان خیالات کا اظہار انہوں نےکراچی میں سندھ ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔بلاول بھٹوزرداری نے کہا کہ وہ اس خاندان اور جماعت سے تعلق رکھتے ہیں جس نے اس ملک کو آئین دیا،انہوں نے یہ بھی واضح کیا ہے کہ ان کی جماعت کسی ایسی قانون سازی کے حق میں نہیں جو کسی فردِ واحد کو فائدہ یا نقصان پہنچانے کے لیے ہو۔انہوں نے واضح کیا کہ ان کی مجوزہ ترامیم کے تحت آئینی عدالت میں صوبوں کوبرابر نمائندگی حاصل ہوگی اور روٹیشن پالیسی کے تحت چیف جسٹس ہر صوبے سے ہوگا،ہم نے ماضی میں دیکھا کہ سپریم کورٹ کے ججز نے اپنے اختیارات سے تجاوز کیا،انہوں نے کہا کہ ہم نے جمہوریت کی بحالی کے لیے نسلوں کی قربانیاں دیں تاکہ عوام پارلیمان میں ایسے نمائندوں کو منتخب کرکے بھیجیں جس سے ان کی مرضی کا آئین اور قانون بنے۔
انہوں نے کہا کہ شہید محترمہ بینظیر بھٹو نے میثاق جمہوریت پر دستخط کر کے یہ طےکیا تھا کہ اگر پاکستان کے نظام کو ٹھیک کرنا ہے، جمہوریت بحال کرنی ہے اور عوام کے مسائل حل کرنے ہیں تو میثاق جمہوریت جیسے معاہدوں کو لاگو کرنا ہوگا۔انہوں نے مزید کہا کہ 18 ویں ترمیم پاس کرنے اور 1973 کے آئین کو بحال کرنے کے بعد ہم نے شہید محترمہ بینظیر بھٹو کے نامکمل مشن کو پورا کیا۔چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے نشاندہی کرتے ہوئے کہا کہ سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری ایک پی سی او جج تھے۔ اُس وقت ہی شہید محترمہ بینظیر بھٹو نے یہ طےکیا تھا کہ ملک میں آئینی عدالت بنے گی، عدالتی اصلاحات ہوں گی اور عوام کو فوری انصاف ملے گا۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے اپنے ماضی سے سبق سیکھا ہے، ہم اپنی وکلاء برادری کی بہت عزت کرتے ہیں، قانون سازی اور آئین سازی پارلیمنٹ کا استحقاق ہے لیکن جج صاحبان نے آرٹیکل 184 اور 186 کے نام پر خود کو اختیار دیا ہے کہ وہ آئین سازی کرسکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے شہریوں کو فوری انصاف ملے اور کسی صوبے کے درمیان کوئی فرق نہ رہے تو پھر وفاقی آئینی عدالت ضروری ہے۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ عدالتی نظام میں 15 فیصد سیاسی مقدمات پر 90 فیصد وقت صرف کیا جاتا ہے، اگر ہم چاہتے ہیں کہ عوام کو انصاف فراہم کیا جائے تو جس کام کے لیے یہ ادارے بنے ہیں ان کو وہ کام کرنے دیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ 58 ٹو بی اور 63 اے آئین میں ایک ایسا ہتھیار تھا جس کو استعمال کرکے جمہوری حکومتوں کو غیر جمہوری طریقے سے گھر بھیجا گیا، اس کالے قانون کو ختم کرنے کے لیے طویل جدوجہد کی گئی اور آخر کار اس کو ختم کیا گیا۔ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ 58 ٹو بی کا اختیار عدالت نے اپنے پاس رکھ کر منتخب وزرائے اعظم کو گھر بھیجا۔عدالت نے آئین میں ترمیم کا اختیار اپنے پاس رکھ کر 63 اے کے فیصلہ میں آئین کو تبدیل کیا۔
انہوں نے کہا کہ آئین کی بالادستی کی جنگ میں خود لڑوں گا اور اس کے لیے ضروری ہے کہ تمام صوبوں کو منصفانہ نمائندگی حاصل ہو۔بلاول بھٹونے کہا کہ آئینی اصلاحات اُن لوگوں کیلئے نئی چیز ہے جن کی تاریخ تحریک عدم اعتماد سے شروع ہوتی ہے،دنیا میں عدم اعتماد واحد جمہوری پارلیمانی طریقہ ہے،اور یہ اختیار پارلیمان کے پاس ہے، ملکی تاریخ میں پہلی بار عدم اعتماد کے ذریعے ایک وزیراعظم کو گھر بھیجا گیا، ورنہ اس سے قبل آمر یا جج صاحبان منتخب وزرائےاعظم کو گھر بھیجتے رہے۔چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے دوٹوک الفاظ میں کہا کہ ان کے لیے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس منصور علی شاہ قابلِ احترام ہیں، جواس بنچ میں شریک تھے جنہوں نے شہید ذوالفقار علی بھٹو کے بے قصور ہونے کافیصلہ سنایا تھا۔