اسلام آباد کی پہچان، شاہ فیصل مسجد، صرف ایک عبادت گاہ نہیں بلکہ پاکستان کی نظریاتی، ثقافتی اور فنِ تعمیر کی عظمت کا مظہر ہے۔ 2 جون 1986ء کو جب یہ عظیم الشان مسجد مکمل ہوئی، تو یہ ایک خواب کی تعبیر تھی—ایسا خواب جو 1966ء میں سعودی فرمانروا شاہ فیصل بن عبدالعزیز نے دیکھا تھا۔
جب 1959ء میں اسلام آباد کی منصوبہ بندی شروع ہوئی، تو شہر کی شناخت کے طور پر ایک شاندار مسجد کا تصور بھی ذہنوں میں موجود تھا۔ 1966ء میں شاہ فیصل کے پاکستان کے دورے کے دوران، انہوں نے اس مسجد کی تعمیر کے تمام اخراجات برداشت کرنے کا اعلان کیا، جو ان کے عشقِ اسلام اور پاکستان سے محبت کا مظہر تھا۔
1968ء میں اس مسجد کے ڈیزائن کے لیے بین الاقوامی سطح پر مقابلہ ہوا، جس میں ترکی کے نوجوان آرکیٹیکٹ "ویدت دلوکے” کا انوکھا اور جاذب نظر ڈیزائن منتخب کیا گیا۔ مارچ 1975ء میں شاہ فیصل کی شہادت کے بعد حکومت پاکستان نے اس مسجد کو اُن کے نام سے منسوب کرنے کا اعلان کیا۔ 12 اکتوبر 1976ء کو شاہ خالد نے مسجد کا سنگِ بنیاد رکھا، اور پھر دس سالہ طویل محنت کے بعد 2 جون 1986ء کو یہ مسجد پایۂ تکمیل کو پہنچی۔
فیصل مسجد کا طرزِ تعمیر اسلامی ورثے اور جدید فنِ تعمیر کا حسین امتزاج ہے۔ اس کا مرکزی ہال خیمہ نما ہے اور چاروں اطراف میں ایستادہ مینار مسجد کی شان میں اضافہ کرتے ہیں۔ مسجد کے اندرونِ خانہ صادقین اور گل جی جیسے نامور فنکاروں کی خطاطی نے اس کو روحانیت کے ایک منفرد رنگ میں رنگ دیا ہے۔
فیصل مسجد صرف ایک عمارت نہیں، بلکہ یہ عزم، اخلاص، اور اسلامی تشخص کی علامت ہے۔ آج جب ہم اس کے تکمیل کے دن کو یاد کرتے ہیں، تو یہ ہمیں یاد دلاتی ہے کہ خواب اگر خلوص نیت سے دیکھے جائیں تو وہ کبھی نہ کبھی حقیقت ضرور بنتے ہیں۔