اس سے قبل یہ تذکرہ ہوچکا ہے کہ اللہ کے جلیل القدر پیغمبر حضرت ابراہیم علیہ السلام اور ان کے فرزندِ جلیل حضرت اسماعیل علیہ السلام جب اللہ کے حکم کی تعمیل میں دونوں تعمیرِکعبہ میں مشغول تھے اس وقت حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اللہ رب العزت سے دعاء ومناجات کے دوران یہ دعاء بھی مانگی تھی:
{رَبَّنَا وَابْعَثْ فِیھِم رَسُولاًمِّنھُم یَتْلُوا عَلَیھِم آیَاتِکَ وَیُعَلِّمُھُمُ الکِتَابَ وَالحِکْمَۃَ وَیُزَکِّیْھِم اِنَّکَ أَنتَ العَزِیزُ الحَکِیمُ} البقرۃ[۱۲۹]
ترجمہ: اے ہمارے رب! ان میں انہی میں سے رسول بھیج جو ان کے پاس تیری آیتیں پڑھے ٗ انہیں کتاب و حکمت سکھائے اور انہیں پاک کرے، یقینا تو غلبہ والا اور حکمت والا ہے۔
چنانچہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی یہ دعاء اسی شہرمکہ میں رسول اللہ ﷺ کی ولادت اور پھر بعثت کی شکل میں پوری ہوئی، جیساکہ خود قرآن کریم میں ارشادِ ربانی ہے:
{ھُوَ الَّذِي بَعَثَ فِي الأُ مِّیّٖینَ رَسُولاً مِنھُم یَتلُوا عَلَیھِم آیَاتِہٖ وَیُزَکِّیھِم وَیُعَلِّمُھُمُ الکِتَابَ وَالحِکمَۃَ وَاِن کَانُوا مِن قَبلُ لَفِي ضَلَالٍ مُّبِینٍ}
ترجمہ: وہی ہے جس نے ان ناخواندہ لوگوں میں انہی میں سے ایک رسول بھیجا جو انہیں اس کی آیتیں پڑھ کر سناتا ہے اور ان کو پاک کرتا ہے اور انہیں کتاب و حکمت سکھاتا ہے، اگرچہ یہ اس سے قبل یقینا کھلی گمراہی میں تھے۔ الجمعہ[۲]
رسول اللہ ﷺ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے فرزند جلیل حضرت اسماعیل علیہ السلام کی نسل سے تھے اورصحت و درستی کے اعتبار سے اس سلسلۂ نسب کے دوحصے ہیں:
پہلاحصہ آپ ﷺ کے والد عبداللہ سے آپ ﷺ کے اکیسویں پشت کے دادا عدنان سے جا ملتا ہے، سلسلۂ نسب کے اس حصے میں کوئی شک و شبہہ نہیں ہے، بلکہ آپ ﷺ نے خود یہاں تک اپنانسب زبانی بیان فرمایا ہے۔ [حاشیۃ السیرۃ النبویۃ لابن ہشام ج:ا ۔ص:۳۹ (ذکر نسب النبی ﷺ) نیز: دلائل النبوۃ للبیہقی :۱/۱۸۰، وغیرہ]
دوسراحصہ بائیسویں پشت سے شروع ہوکر باسٹھویں دادا یعنی حضرت ابراہیم علیہ السلام تک ہے، یہ حصہ بھی درست ہے، البتہ اس کی درستی و ثقاہت پہلے حصے جیسی نہیں۔
بعض مؤرخین نے باسٹھویں پشت یعنی حضرت ابراہیم علیہ السلام سے اَسّیویں پشت یعنی ابوالبشر حضرت آدم علیہ السلام تک بھی نسب بیان کیا ہے، لیکن اس کی صحت کا درجہ نسبۃً مزید کمزور ہے۔
لہٰذا یہ بات طے ہوگئی کہ آپ ﷺ کاسلسلۂ نسب حضرت ابراہیم علیہ السلام تک بالکل یقینی اورقطعی ہے اوراس میں کسی شک و شبہہ کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔
آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
(اِنَّ اللّہ اصْطَفَیٰ کِنَانَۃَ مِن وَلَدِ اِسمَاعِیلَ، وَاصْطَفَیٰ قُرَیشاً مِن کِنَانَۃ، وَاصْطَفَیٰ مِن قُرَیشٍ مِن بَنِي ھَاشِم، وَاصْطَفَانِي مِن بَني ھَاشِم)
[مسلم [۲۲۷۶] کتاب الفضائل، باب فضل النبی ﷺ (کتاب:۴۳، باب:۱)]
ترجمہ: اللہ نے اسماعیل [علیہ السلام] کی نسل میں سے کنانہ کومنتخب فرمایا، پھر کنانہ میں سے قریش کو منتخب فرمایا، پھر قریش میں سے بنوہاشم کو منتخب فرمایا، اور پھر بنوہاشم میں سے مجھے منتخب فرمایا)۔
[جاری ہے]