حضرت ابراہیم علیہ السلام کی روانگی کے بعدحضرت ہاجرہ اور ان کا شیرخوار بیٹا اسماعیل دونوں وہیں اس ویرانے میں رہ گئے جہاں کوئی انسان نہیں تھا، جہاں نہ زندگی تھی نہ زندگی کاکوئی نشان… تھوڑی بہت جو خوراک تھی وہ ختم ہوگئی، اب انہیں بھوک اور پیاس نے ستایا، اور شیرخوار بچے نے بری طرح رونا اور بلکنا شروع کردیا، حضرت ہاجرہ اس ویرانے میں حیران وپریشان پانی کی تلاش میں اِدھراُدھر نظریں دوڑانے لگیں، قریب ہی ایک ٹیلہ (صفا) نظر آیا، اس خیال سے اس کے اوپرچڑھ گئیں کہ ٹیلے کے اوپر بلندی سے دور دور تک نگاہ جائے گی اوریوں شاید کوئی انسان یاکھانے پینے کا کوئی سامان نظر آجائے، لیکن وہاں ایسی کوئی چیز نظر نہ آئی، سامنے (نصف کلومیٹرکے فاصلے پر) ایک اورٹیلہ (مروہ) نظر آیا تو صفاسے نیچے اتریں اور دوڑتی ہوئی اس دوسرے ٹیلے پر چڑھ گئیں، لیکن وہاں بھی کچھ نظر نہ آیا تو واپس پھر صفا پر پہنچیں… یوں ممتاکی ماری ہوئی اس خاتون نے اپنے بچے کیلئے پانی کی تلاش میں اس پہاڑی اور پتھریلی زمین پر دوڑتے ہوئے ان دونوں ٹیلوں کے درمیان مسلسل سات چکر لگائے۔ ساتویں چکرکے اختتام پر جب وہ مروہ پر کھڑی ہوئی نہایت بے چینی کے ساتھ اِدھراُدھر نظردوڑا رہی تھیں کہ اچانک انہیں ایک آوازسنائی دی، پلٹ کر دیکھا توبچے کے قریب کسی کو کھڑا ہوا پایا، جوکہ درحقیقت جبریل علیہ السلام تھے، جنہوں نے وہاں اس مقام پر اپنا پَر زمین پر مارا کہ جہاں بچہ مسلسل روتے اور بلکتے ہوئے اپنی ایڑیاں رگڑ رہا تھا، تب اللہ کے حکم سے اس سنگلاخ اور پتھریلی زمین میں ’’زمزم‘‘ کا چشمہ پھوٹ پڑا… یوں حضرت ہاجرہ اور ان کے شیرخوار لختِ جگر حضرت اسماعیل علیہ السلام کیلئے من جانب اللہ وہاں زندگی بسر کرنے کا انتظام کردیاگیا… اور یوں یہ دونوں ماں بیٹامستقل طورپر اسی جگہ قیام پذیر ہوگئے… لہٰذا یہی دونوں نفوسِ قدسیہ ہی اُس مقدس ترین بقعۂ زمین یعنی شہر ’’مکہ‘‘ کے اولین مکین تھے۔
وقت کا پہیہ چلتا رہا… ایک روز ملکِ یمن سے تعلق رکھنے والے قبیلۂ ’’بنوجُرہم‘‘ کا ایک قافلہ جب وہاں سے گذر رہاتھا تو انہوں نے اچانک وہاں ایک پرندہ اڑتا ہوا دیکھا جس پر انہیں حیرت بھی ہوئی اورمسرت بھی، کیونکہ یہ اس بات کی علامت تھی کہ یہاں قرب و جوار میں کہیں پانی موجود ہے۔ جبکہ اس سے قبل انہیں یہاں کبھی کوئی پرندہ نظر نہیں آیا تھا اور ان کے علم کے مطابق ماضی میں یہاں پانی کاکوئی نام ونشان نہیں تھا۔ جبکہ اب پرندہ اڑتا ہوا نظر آیا تو انہوں نے سرگرمی سے پانی کی تلاش شروع کی جس کے نتیجے میں وہ جلد ہی ’’زمزم‘‘ تک جاپہنچے، وہاں حضرت ہاجرہ سے ملاقات ہوئی، تب انہوں نے ان سے یہ گذارش کی کہ ہمیں یہاں مستقل قیام کی اور اس پانی سے استفادے کی اجازت دی جائے۔ غورطلب بات ہے کہ وہ پورا قافلہ تھا، جبکہ دوسری طرف محض ایک عورت اور اس کا کم سِن بیٹا، اگر وہ چاہتے تو زبردستی بھی قبضہ کرسکتے تھے… لیکن انہوں نے ایسانہیں کیا، اور اعلیٰ اخلاق و کردار کا مظاہرہ کرتے ہوئے محض گذارش کی اور اجازت چاہی۔ جس پرحضرت ہاجرہ نے انہیں اس شرط پراجازت دے دی کہ وہ اس پانی سے استفادہ تو کریں ٗ لیکن اس پر ان کا کوئی ’’حق ملکیت‘‘ نہیں ہوگا، اور یہ حق بدستور خود ان کے پاس ہی رہیگا۔ چنانچہ اس شرط کو قبول کرتے ہوئے وہ لوگ مستقل وہیں آباد ہوگئے اور یوں مکہ کی آبادی بڑھتی گئی، حتیٰ کہ حضرت اسماعیل علیہ السلام جوان ہوگئے اوران کی والدہ نے ان کی شادی اسی قبیلہ بنوجرہم میں کرادی۔ یوں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی نسل کا یہ سلسلہ حضرت اسماعیل علیہ السلام (جوکہ حضرت ہاجرہ سے تھے) کے توسط سے مکہ مکرمہ میں بڑھتا چلاگیا۔
جبکہ دوسری طرف فلسطین میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی نسل حضرت اسحاق علیہ السلام (جو حضرت سارہ سے تھے) کے توسط سے مسلسل بڑھتی چلی گئی اور آخر یہی لوگ ’’بنی اسرائیل‘‘ کہلائے۔
[جاری ہے]