اتوار, دسمبر 22, 2024

سیرتِ مبارکہ … قبل از ولادت

عام طورپر اہلِ قلم کے یہاں رواج یہ ہے کہ جب کسی اہم شخصیت کی سیرت نگاری یا اس کے حالات و واقعات کاتذکرہ مقصود ہو تو اکثر و بیشتر ابتداء اس کی ولادت سے کی جاتی ہے، یا اس علاقے کاکچھ تذکرہ کردیاجاتاہے جہاں اس کی ولادت ہوئی، اور اس سے متعلق کچھ جغرافیائی تفصیلات ومعلومات درج کردی جاتی ہیں، یا زیادہ سے زیادہ اس دور اوراس علاقے کے مذہبی ٗسیاسی و معاشرتی حالات کاتذکرہ کیاجاتاہے جن میں اس شخصیت کی ولادت اورپھرنشوونماہوئی۔

جبکہ رسول اللہ ﷺکی سیرت مبارکہ اورحیاتِ طیبہ کے بارے میں جب ہم غور و فکرکرتے ہیں تو ہمیں اس حقیقت کاادراک ہوتاہے کہ آپ ﷺکی شان نرالی ہے اورآپ ﷺ کی سیرتِ مبارکہ کامعاملہ بالکل ہی مختلف ہے۔کیونکہ آپ ﷺ کامبارک تذکرہ توآپ ﷺ کی ولادت سے بہت پہلے ہی سے چلاآرہاتھا، گذشتہ امتوں میں بھی آپ ﷺ کاچرچاتھا، اور آپ ﷺ کی شخصیت گذشتہ انبیائے کرام علیہ السلام کے نزدیک جانی پہچانی تھی، اور اس حقیقت کوجاننے کیلئے کسی تاریخی کتاب کی ورق گردانی کی کوئی ضرورت نہیں، کیونکہ یہ حقیقت تو خود قرآن کریم سے ثابت ہے۔

چنانچہ قرآن کریم میں ارشادہے:

وَاِذ أخَذَاللّہُ مِیثَاقَ النَّبِیِّینَ لَمَا آتَیتُکَم مِن کِتَابٍ وَحِکْمَۃٍ ثُمَّ جَائَ کُم رَسُولٌ مُّصَدِّقٌ لِّمَا مَعَکُم لَتُؤمِنُنَّ بِہٖ وَلَتَنصُرُنَّہٗ
قَالَ أَ أَقْرَرتُم وَأَخَذتُم عَلَیٰ ذٰلِکُم اِصْرِی قَالُوا أَقرَرنَا قَالَ فَاشْھَدُوا وَأَنَا مَعَکُم مِنَ الشَّاھِدِینَ فَمَنْ تَوَلَّیٰ بَعدَ ذٰلِکَ فَأُولَٓئِکَ ھُمُ الفَاسِقُونَ
آل عمران:[۸۱۔۸۲]
ترجمہ: اورجب اللہ نے نبیوں سے یہ عہدلیاکہ جوکچھ میں تمہیں کتاب وحکمت دوں ٗ پھر تمہارے پاس وہ رسول آئے جو تمہارے پاس موجود کتاب کی تصدیق کرنے والاہو ٗ تو تم سب اس رسول پرضرورایمان لاؤگے اوراس کی مددونصرت کروگے،

فرمایا: کیاتم سب نے اقرار کیا؟ اوراس میرے عہد کو قبول کیا؟ ان سب نے کہا: ہم نے اقرارکیا، فرمایا: پھر اب تم گواہ رہو، اورمیں بھی تمہارے ساتھ گواہ ہوں، پھرجوکوئی [اس عہدواقرارکے بعد] پھرجائے تویقینا وہی لوگ نافرمان ہیں)۔
یعنی رسول اللہ ﷺکے بارے میں گذشتہ تمام انبیائے کرام علیہم السلام سے یہ عہد لیاگیاکہ اگران کے دور میں ہی آپ ﷺ کا ظہور ہوگیا تو وہ اپنی نبوت چھوڑ کر آپ پر ایمان لائیں گے اور آپ ﷺ ہی کااتباع کریں گے۔
(اس آیت کی ایک تفسیرتویہی بیان کی گئی ہے ۔لیکن یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ مفسرین کی ایک بڑی تعدادکے نزدیک اس کی تفسیریہ ہے کہ تمام انبیائے کرام علیہم السلام سے یہ عہدلیاگیاکہ وہ باہم ایک دوسرے کی تائید و نصرت کریں گے ۔حقیقت یہ ہے کہ دونوں تفسیروں میں کوئی تعارض نہیں ہے اوراس دوسری تفسیرکے ضمن میں ہی پہلی تفسیربھی خودبخودشامل ہے، کیونکہ تمام انبیائے کرام علیہم السلام کی طرف سے ایک دوسرے کیلئے تائید و نصرت کے عہدمیں ہی یقینا رسول اللہ ﷺ کیلئے تائید و نصرت بھی شامل ہے۔)

اسی طرح اللہ کے جلیل القدر پیغمبر حضرت ابراہیم علیہ السلام اور ان کے فرزندِجلیل حضرت اسماعیل علیہ السلام جب اللہ کے حکم کی تعمیل میں دونوں تعمیرِکعبہ میں مشغول تھے ٗ اس وقت حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اللہ رب العزت سے دعاء ومناجات کے دوران یہ دعاء بھی مانگی:

رَبَّنَا وَابْعَث فِیھِم رَسُولاًمِّنھُم یَتلُوا عَلَیھِم آیَاتِکَ وَیُعَلِّمُھُمُ الکِتَابَ وَالحِکمَۃَ وَیُزَکِّیھِم اِنَّکَ أَنتَ العَزِیزُ الحَکِیمُ
البقرۃ[۱۲۹]
ترجمہ: اے ہمارے رب! ان میں انہی میں سے رسول بھیج جواِن کے پاس تیری آیتیں پڑھے ٗ انہیں کتاب وحکمت سکھائے اور انہیں پاک کرے، یقینا تو غلبہ والا اورحکمت والا ہے۔

قرآن کریم میں ارشاد ہے:

ھُوَ الَّذِي بَعَثَ فِي الأُ مِّیّٖنَ رَسُولاً مِنھُم یَتلُوا عَلَیھِم آیَاتِہٖ وَیُزَکِّیھِم وَیُعَلِّمُھُمُ الکِتَابَ وَالحِکْمَۃَ وَاِن کَانُوا مِن قَبلُ لَفِي ضَلَالٍ مُّبِینٍ
الجمعہ[۲]
ترجمہ: وہی ہے جس نے ان ناخواندہ لوگوں میں انہی میں سے ایک رسول بھیجا جو انہیں اس کی آیتیں پڑھ کرسناتاہے اوران کوپاک کرتاہے اورانہیں کتاب وحکمت سکھاتاہے، اگرچہ یہ اس سے قبل یقیناکھلی گمراہی میں تھے۔

مفسرین اس بات پرمتفق ہیںکہ اس سے مراد رسول اللہ ﷺ ہیں، یعنی حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جودعاء مانگی تھی اس کی قبولیت آپ ﷺ کی بعثت کی شکل میں ہوئی۔
اسی طرح حضرت عیسیٰ علیہ السلام جو کہ رسول اللہ ﷺ سے چھ سو سال پہلے گذرے ہیں ٗ قرآن کریم میں ان کے بارے میں تذکرہ ہے کہ انہوں نے اپنی قوم بنی اسرائیل کو خطاب کرتے ہوئے نبیٔ آخر الزمان ﷺ کے بارے میں یوں خوشبری سنائی:

وَاِذقَالَ عِیسیٰ ابنُ مَریَمَ یَا بَنِي اِسرَائِیلَ اِنِّي رَسُولُ اللّہِ اِلَیکُم مُصَدِّقاً لِّمَا بَینَ یَدَیَّ مِنَ التَّورَاۃِ وَمُبَشِّراً بِرَسُولٍ یَّأتِيمِن بَعدِياسمُہٗ أَحمَدُ
الصف[۶]

ترجمہ: اورجب مریم کے بیٹے عیسیٰ نے کہاکہ اے بنی اسرائیل!میں تم سب کی طرف اللہ کارسول ہوں ٗمجھ سے پہلے کی کتاب تورات کی میں تصدیق کرنے والاہوں اوراپنے بعدآنے والے ایک رسول کی میں تمہیں خوشخبری سنانے والاہوںجن کانام احمدہے۔

رسول اللہ ﷺنے ارشادفرمایا:

(اِنِّي عِندَاللّہِ مَکتُوبٌ :خَاتَمُ النَّبِییّنَ وَاِنَّ آدَمَ لَمُنجَدِلٌ فِي طِینَتِہٖ)
ترجمہ:میں اللہ تعالیٰ کے ہاں اس وقت سے’’ خاتم النبیین‘‘ لکھاہواہوں کہ جب آدم علیہ السلام کاخمیرتیارہورہاتھا۔
مشکاۃ المصابیح[۵۷۵۹]باب فضائل سیدالمرسلین۔

یعنی آپ ﷺعلمِ الٰہی میں ازل سے ہی خاتم النبیین تھے جبکہ حضرت آدم علیہ السلام اس وقت تخلیقی مراحل میں تھے۔

نیزرسول اللہ ﷺکاتذکرہ چونکہ سابقہ کتب سماویہ میں موجود تھا اس لئے اہلِ کتاب آپ ﷺ کی بعثت ورسالت سے بخوبی واقف تھے اورآپ ﷺ کی شخصیت ان کے نزدیک خوب جانی پہچانی تھی، قرآن کریم میں متعددمقامات پراس بات کاتذکرہ موجود ہے۔
مثلاً ارشادِربانی ہے:

وَلَمَّا جَائَ ھُم کِتَابٌ مِن عِندَ اللّہِ مُصَدِّقٌ لِّمَا مَعَھُم وَکَانُوا مِن قَبلُ یَسْتَفْتِحُونَ عَلَیٰ الَّذِینَ کَفَرُوا فَلَمَّا جَائَ ھُم مَّا عَرَفُوا کَفَرُوا بِہٖ فَلَعْنَۃُ اللّہِ عَلَیٰ الکَافِرِینَ
البقرہ[۸۹]
ترجمہ: اورجب اللہ کی طرف سے ایک کتاب [قرآن کریم] ان کے پاس آئی جو تصدیق کرتی ہے اس کتاب [تورات]کی جوان کے پاس تھی ٗ حالانکہ پہلے یہ خود[اس کے ذریعے]کافروں پرفتح چاہتے تھے، اورجب وہ چیز آگئی تو باوجود اس کو پہچان لینے کے اس کا انکار کرنے لگے ،اللہ کی لعنت ہو انکارکرنے والوں پر)۔

یعنی یہ یہودِ مدینہ جب کسی جنگ کے موقع پر مشرکین سے شکست کھاجاتے تودعاء کرتے کہ یااللہ! آخری نبی کو جلدمبعوث فرما ٗتاکہ اس کے ساتھ مل کر ہم ان مشرکین پر غلبہ اور فتح حاصل کرسکیں، یعنی رسول اللہﷺ کی بعثت ان کے علم میں تھی اوراس چیز سے خوب واقف تھے، مگراس کے باوجود محض حسدکی وجہ سے انہوں نے کفرکیا۔

اسی طرح قرآن کریم میں ارشادہے:

اَلَّذِینَ آتَینَاھُمُ الکِتَابَ یَعرِفُونَہٗ کَمَا یَعرِفُونَ أَبنَائَ ھُم
البقرہ[۱۴۶]
ترجمہ: جنہیں ہم نے کتاب دی ہے وہ تواسے [یعنی رسول اللہ ﷺکو] ایسے پہچانتے ہیں جیسے وہ اپنے بچوں کوپہچانتے ہیں،ان کی ایک جماعت حق کوپہچان کر پھر اسے چھپاتی ہے۔

یعنی رسول اللہﷺ کی شخصیت اورآپ ﷺ کی حقانیت و صداقت ان اہلِ کتاب کے ہاں اس قدرمعروف اور یقینی تھی اور وہ اس طرح آپ ﷺ کوجانتے اورپہچانتے تھے کہ جس طرح بغیرکسی شک و شبہہ کے خود اپنے بچوں کوجانتے اور پہچانتے تھے۔

اسی طرح قرآن کریم میں ارشاد ہے:
… یَجِدُونَہٗ مَکتُوباً عِندَھُم فِي التَّورَاۃِ وَالاِنْجِیلِ
اعراف[۱۵۷]

یعنی یہ اہلِ کتاب رسول اللہ ﷺ کا تذکرہ اپنے پاس تورات و انجیل میں لکھا ہوا پاتے ہیں۔

متعلقہ خبریں

مقبول ترین

متعلقہ خبریں