پیر, اکتوبر 7, 2024

کیا ملازمت عورت کا حق ہے؟

ایک دعوی بڑے زور و شور سے کیا جاتا ہے کہ ملازمت کرنا عورت کا حق ہے۔ اصولی طور پر پہلے یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ حق اور ذمہ داری دو الگ نوعیت کی چیزیں ہیں۔ حقوق کا مقصد اشخاص کو ذاتی تحفظ فراہم کرنا ہوتا ہے جبکہ ذمہ داری کا مقصد دوسروں کو تحفظ دینا ہوتا ہے۔

اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ملازمت ایک ذمہ داری ہے، کیونکہ اس کے ذمہ دوسروں کا خرچہ بھی ہوتا ہے، اب اس مشقت کے لیے خود کو وہی شخص تیار کرے گا جس کی ذمہ داری کسی پہ نہ ہو یا اس پہ کسی اور کی ذمہ داری ہو۔ شریعت نے تقسیم کار کرتے ہوئے خانہ داری سے متعلقہ امور کا ذمہ دار عورت کو بنایا جبکہ بیرونی امور کا کفیل مرد کو قرار دیا۔ چنانچہ بالغ مرد پہ جہاں اپنی کفالت ہے وہیں گھریلو خواتین اور نابالغ بچوں کا خرچ کا بھی اس کے ذمہ لازم ہے۔ اللہ تعالٰی انسانیت کے خالق ہونے کے ناطے اس کی نفسیات، کمزوریوں اور خوبیوں سے بخوبی واقف ہیں۔ چنانچہ عورت کی جسمانی بناوٹ اور نفسیات اس طرح کی ہے کہ اس کے لیے مشقت والا کام کرنا ممکن نہیں، اس لئے عورت کو اس ذمہ داری سے سبکدوش کیا ہے اور کسی قسم کی پر مشقت ذمہ داری کا بوجھ اس کے سر پہ نہیں ڈالا۔ نابالغ اولاد کے سر سے والد کا سایہ اٹھ جائے تب بھی عورت کے ذمہ ان کی کفالت نہیں ہے، یعنی کسی درجے میں بھی اس پہ کسی کی کفالت کا بوجھ نہیں ڈالا گیا بلکہ اسے ایک بہترین معاشرے کی تشکیل کے لئے اولاد کی تربیت گاہ قرار دیا۔ لہذا کسی مسلم معاشرے کا یہ خوش نما تصور نہیں ہو سکتا کہ اس میں عورتیں کمائی کریں اور یہ بوجھ اپنے کندھوں پہ سوار کر لیں جبکہ مرد عورت کی کمائی پہ انحصار کر کے گھر میں بیٹھ جائے یا عورت اپنی لا متناہی خواہشات کی تکمیل کے لیے ملازمت کی چادر تان لے۔

عورتوں میں ملازمت کے رجحان کا تاریخی جائزہ لیا جائے تو یہ قریب زمانے کا ہے، جنگ عظیم میں بہت بڑی تعداد میں ہلاکتوں کے بعد مغربی دنیا کو اپنی صنعت چلانے کے لیے مردوں کی تعداد ناکافی معلوم ہونے لگی تو انہوں نے اپنی مالی انڈسٹری کو چلانے اور تجارت کا پہیہ جاری رکھنے کے لیے عورت کو گھر سے نکالنے کا منصوبہ بنایا۔ اس منصوبہ کو عملی جامہ پہنانے کے لیے مذکورہ بالا خوبصورت عنوان دیا گیا اور گھر سے نکلنے کو آزادی و ترقی سے تعبیر کیا گیا۔ ملازمت کو اپنا حق سمجھ کر عورت گھر سے نکل آئی اور آزادی بھی حاصل کر لی اور اس کے نتیجے میں مغربی دنیا کی انڈسٹری تو مضبوط ہو گئی لیکن خاندانی نظام تباہ ہو گیا اور عورت کا معاشرے میں وقار ختم کر دیا، اسے گھر کی چار دیواری سے نکال کر بازاروں، محفلوں، گلی کوچوں اور سائن بورڈ کی زینت بنا دیا گیا۔ عورت جو پردہ داری کا استعارہ تھی، پراڈکٹ کا استعارہ بن گئی، اس کی جسمانی نمائش کی جانے لگی، ادائے حسن کی بولیاں لگنے لگیں، اسے فروخت کیا جانے لگا، اس کے حقوق پامال ہونے لگے، جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا جانے لگا، حقیر سے حقیر چیز سے منافع اٹھانے کے لیے عورت کو اپنے خد و خال کی تشہیر کی گئی اور یوں اس معاشرے میں اس کی حیثیت ایک گری پڑی حقیر چیز سے زیادہ نہ رہی۔

کیا عورت کو ملازمت دلا کر فائدہ دیا گیا؟
مذکورہ بالا تمام صورت حال سے قطع نظر کر کے خالصتا عورت کے نقطہ نگاہ سے دیکھا جائے تو بھی معلوم ہوگا کہ مغرب نے اس کے ساتھ بہت بڑا ظلم کیا۔ اسے ملازمت کے لئے نکالا لیکن گھریلو امور بدستور اسی کے ذمہ برقرار رکھے گئے، اب ایک عورت کو بیک وقت گھریلو کام بھی کرنا، بچوں کی ضروریات پوری کرنا اور ملازمت کرنا جیسے مشکل ترین کام کرنے تھے، جس نے عورت کو بجائے آزادی و راحت دینے کے اسے مزید مقید کر کے ذمہ داریوں کے بوجھ کے نیچے اس کی کمر توڑ دی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ وہ گھریلو معاملات کو خوش اسلوبی سے چلا سکی اور نہ ہی اولاد کے اخلاق و کردار کو سنوارنے کے لیے اپنی آغوش کو ایک بہترین تربیت گاہ بنا سکی۔ ان حقائق کی بنا پر ہم مغرب کو خواتین کے حقوق کا علمبردار سمجھتے ہیں اور نہ ہی اسے خواتین کا خیر خواہ خیال کرتے ہیں، بلکہ اپنے مذموم تجارتی و جنسی مقاصد کی تکمیل کے لیے مختلف چالیں چلنے والا خونخوار درندہ سمجھتے ہیں۔

مغربی معاشرے کی خواتین کا ایک بہت بڑا طبقہ تلخ تجربات سے گزرنے کے بعد انہیں خونخوار اور عزت و آبرو کا دشمن سمجھتا ہے، لیکن مشرقی عورت انہی خوبصورت عناوین کے دھوکے میں گھریلو چار دیواری کو خیر آباد کہہ چکی ہے اور اس کے نتائج وہی ہوں گے جس کا آج مغربی معاشرہ چشم دید گواہ ہے۔ اس رخ پہ چل کر سینکڑوں خواتین کی عزت پامال ہو چکی اور بیسیوں معصوم بچیاں درندوں کی ہوس کی بھینٹ چڑھ چکی ہیں، اب آخر اس نکتے کو سمجھنے کے لیے کتنی اور قربانی درکار ہے؟ کتنی اور عزتوں کا جنازہ نکالنے کا ارادہ ہے؟ اب تو اصحاب عقل و دانش کو ان حقائق سے معاملہ کی بنیاد کو سمجھ کر عورت کو واپس اس کے اصلی مقام پہ پہنچا دینا چاہئے۔ اس مقصد کے لئے ایک مضبوط تحریک کی ضرورت ہے جس کے قیام کے لئے اصحاب علم و خرد کی جانب ہم جیسے طالب علموں کی نگاہ ٹکٹکی باندھے دیکھ رہی ہے۔

متعلقہ خبریں

مقبول ترین

متعلقہ خبریں