جمعرات, نومبر 21, 2024

پاکیزہ زندگی با سعادت موت

کائنات اور اس کی ہر چیز فانی ہے، یہاں کسی کو بقا نہیں اور یہی اس دنیا کی اٹل حقیقت ہے جس سے کسی کو انکار نہیں۔ لیکن کچھ لوگ دنیاوی زندگی بے جان ہو کر گزار دیتے ہیں اور کچھ جان قربان کر کے بھی زندہ و جاوید رہتے ہیں۔ انہی شخصیات میں سے ایک جانباز شخصیت مجاہد کبیر محمد یحی السنوار شہید نور اللہ مرقدہ کی ہے۔

نبی کریمﷺ نے اخروی فیصلوں کی بنیاد ان اعمال کو قرار دیا جو انسان اپنی زندگی کے ان لمحات میں کرتا ہے جب وہ اپنی جان کا تحفہ بارگاہ الٰہی میں پیش کر رہا ہوتا ہے۔ موت کے اعمال اس کی زندگی کے اعمال کا عکاس ہوتے ہیں، انسان جس فکر و منہج اور رخ پہ اپنی زندگی بسر کرتا ہے موت اسی کا عملی نمونہ ہوتی ہے۔ شہید محمد یحی السنوار کی موت نے ان کی زندگی کتاب کھول کر دنیا کے سامنے رکھ دی ہے اور ان کے ہر دعوے کو حقیقت کا جامہ پہنایا ہے۔ وہ ایک ایک فرد نہ تھے بلکہ اپنی ذات میں ایک انجمن تھے، وہ دشمن کے ناپاک عزائم و چالوں سے باخبر ایک بیدار مغز قائد تھے، وہ ایک ہو کر بھی دشمن پہ لاکھوں سے زیادہ بھاری تھے۔

جب سے ہوش سنبھالا تو اقصی کے محافظ بنے اور ہر طرح کی غلامی کا طوق اتار پھینکنے کی قسم کھائی، اقصی کی حفاظت کو اپنی زندگی کا مشن اور اوڑھنا بچھونا بنایا تو اس راہ میں آنے والی ہر مشکل، ہر تکلیف اور ہر آزمائش کو خندہ پیشانی سے سہتے رہے، ان کی ہر تحریر و تقریر آزادی کا استعارہ تھی اور اقصی سے والہانہ تعلق کا منہ بولتا ثبوت تھی، وہ ایک عام لفاظی قسم کے خطیب نہ تھے بلکہ جو کہتے تھے وہ کر گزرتے تھے، دشمن پہ کاری ضرب لگانے اور اس کی طاقت و شوکت کو زیر کرنے کے لئے ہر دم نئی راہیں سوچتے۔ وہ ایک قائد ہو کر بھی دشمن کے خلاف صف آرا ہوتے اور مجاہدین کی صف اول میں قائدانہ کردار ادا کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ انہوں نے زندگی کا بہترین دورانیہ اسیری میں گزار دیا، اور اسی دوران ناول لکھا جو غالبا ان کی اکلوتی تصنیف ہے۔ یہ ناول اپنی سرزمین پہ دیکھے گئے واقعات و مشاہدات اور آپ بیتی پہ مشتمل ہے، کہنے کو یہ ایک ناول ہے لیکن وہ حقیقی واقعات کے گرد گھومتی ایک حقیقت ہے۔ یہ ناول اپنے اندر سینکڑوں ناول سے زیادہ جاذبیت و کشش اور تاثیر رکھتا ہے، کیونکہ لکھنے والا ایک فرضی کردار نہ تھا بلکہ وہ اس سفر کا خود مسافر تھا اور دل و جان سے اس لکھے ہوئے پہ ایمان و یقین رکھتا تھا۔ یہ ناول صرف لفاظی نہ تھی بلکہ یہ ان جذبات و احساسات اور کڑھن کا عکس تھیں جو اس شہید کے دل میں موجزن تھے اور ان واقعات کا حقیقی روپ تھا جس کا مشاہدہ ان بیدار آنکھوں نے دیا تھا۔ قلب و ذہن کی اس کیفیت نے ناول کو حسی روح اور معنویت عطا کی اور یہی وجہ اسے باقی ناولوں سے ممتاز بناتی ہے۔

آج محمد یحی السنوار ہم میں نہ رہے لیکن ہمارا یقین ہے کہ وہ اس سے بہتر جہاں میں ہیں اور دنیاوی مصائب و آلام اور تکالیف و مشقتوں سے خلاصی پا کر مہمان رسول بن کر ابدی نعمت و راحت کے لطف اندوز ہو رہے ہوں گے۔ ان کی زندگی کے آخری لمحات نے زندگی بھر کی بے مثال جد جہد کا عملی مظاہرہ دنیا کو دکھایا ہے۔ انہوں نے زندگی کے قیمتی لمحات جانفشانی کے ساتھ اسی مشن کی کڑھن میں گزار دئیے اور ہر مجاہدہ و قربانی کو دل و جان سے قبول کیا، ہر پیشکش کو پاؤں کی ٹھوکر سے اڑایا اور آخر کار اسی مشن پہ جان بھی قربان کر دی۔ ان کی موت نے ثابت کیا کہ وہ اپنے مشن سے کس قدر مخلص تھے، وہ صرف گفتار کے نہیں کردار کے غازی تھے، اس دنیا کی آسائش سے بے نیاز اور مال و منصب کی خواہش سے عاری تھے، پر پل بیت المقدس کی آزادی کی فکر سے سرشار تھے، ہر میدان و محاذ پہ صہیونیوں کے خلاف صف آرا تھے، دیوانہ وار مستانہ وار حریت کی صدائیں بلند کرتے جا رہے تھے، بے خوف و خطر پرخار وادیوں میں اترتے جا رہے تھے، وہ بوڑھے ہو کر بھی جوان تھے، پوری زندگی اسی جد و جہد اور قربانیوں سے مزین تھی۔

یہ وہ لوگ ہوتے تھے جن کی زندگیاں بزدلوں کو شجاعت سکھاتی ہیں، پست ہمت والوں کے حوصلے بڑھاتی ہیں، مایوس لوگوں کے دل میں امید و یقین کی رمق پیدا کرتی ہے، قلوب و اذہان کو اس مشن کی اہمیت و عظمت سے منور کرتی ہیں، بڑی سے بڑی طاقت کا خوف دلوں سے نکال دیتی ہے، زمینی خداؤں سے یقین ہٹا کر خدائے واحد کی کبریائی سے افکار کو جلا بخشتی ہے، امت مسلمہ کو عزیمت کی نئی راہیں دکھاتی ہیں، مردہ دلوں کو ایمان کی تازگی عطا کرتی ہے اور دین کا بھولا سبق پھر یاد کراتی ہے۔ ایسے لوگ امت کے محسن ہوتے ہیں جو دنیاوی آسائشوں اور راحتوں کو قربان کر کے عزیمت کی راہ منتخب کرتے ہیں اور آخرت کے راہی ہو کر بھی زندہ رہتے ہیں اور ان کی خدمات صدیوں تک امت کے قلوب و اذہان کی آبیاری کرتی ہیں، انہی کی زندگی اور موت پہ یہ جملہ صادق آتا ہے:
عاش سعيدا و مات شهيدا

اللہ تعالٰی شہید قائد کی اخروی منازل کو آسان فرمائے، جہود کثیرہ اور مساعی جمیلہ کو شرف قبولیت و نافعیت عطا فرمائے، ان کی شہادت کو اعلی درجات میں قبول فرمائے اور ان کے پاکیزہ خون کا ایک ایک قطرہ اسلام کی سر بلندی، اقصی کی آزادی، فلسطین و اہل فلسطین کی مکمل دینی و تہذیبی و ملی آزادی، امت مسلمہ کی بیداری، حالیہ مزاحمت میں مزید شدت اور صہیونیت کی اپنے حواریوں سمیت ذلت آمیز و عبرتناک ہزیمت و شکست کا ذریعہ بنائے آمین ثم آمین

متعلقہ خبریں

مقبول ترین

متعلقہ خبریں