ہمارے ہاں عمومی روش بن چکی ہے کہ غیروں کا کوئی بھی تہوار آتا ہے تو متعدد و متنوع ابحاث جنم لیتی ہیں اور اس پہ گفت و شنید کی جاتی ہے، بعض اس کے مختلف پہلو بیان کرتے ہوئے فقہی نگاہ سے بعض امور کا جواز بھی بیان کرتے ہیں۔ سر دست اس بات کو سمجھنا چاہئے اسلام کا ایک جداگانہ تشخص و امتیاز اور تہذیب و تمدن ہے اور اس کی بقا اسی میں مضمر ہے کہ اس کو اپنے پورے فکری و علمی و عملی اور تہذیبی وجود کے ساتھ تسلیم کیا جائے اور اس پہ ثابت قدمی سے کھڑا ہوا جائے، یہی اسلام کا اپنے ہر ایک ماننے والے سے تقاضا ہے۔
ہر تہوار میں فقہی جزئیات سے گنجائش نکالنے کی روش شکست خوردہ کی مانند معلوم ہوتی ہے، مثلا برتھ ڈے کا تصور خالص مغربی ہے اب اس کی فقہی توجیہات اور اسلامی جامہ کے ساتھ بہت سے مذہبی حلقے بھی مناتے ہیں، لیکن آج اگر اس شکل میں درست مان بھی لیا جائے تو آنے والی نسل میں یہی شرائط ملحوظ رہیں گی، اس کی گارنٹی کیا ہے؟ اسی طرح اب کرسمس کا تہوار ہے تو اس کے متعلق بھی یہی طرز عمل جاری ہے، البتہ ایک امر کا فرق پیش نظر رہے کہ جہاں مسلم و غیر مسلم ملا جلا معاشرہ ہے اور مسلم اقلیت کا شکار ہیں تو اس ماحول کے تقاضے اور احکامات جدا ہوتے ہیں لیکن جس خطے میں مسلمان اکثریت اور غلبے کے ساتھ رہتے ہیں وہاں تو مسلمانوں کو پورے اعتماد اور تہذیبی غلبے کے ساتھ رہنا چاہیے اور غیر سے آنے والی ہر چیز کو فقہی زاویہ کی بجائے تہذیبی نکتہ نگاہ سے بھی دیکھنا اور پرکھنا چاہئے، ورنہ مسلم اکثریت ہوتے ہوئے بھی انہیں اپنی تہذیب پہ اعتماد پیدا نہیں ہوگا اور نہ وہ اپنی روایات پہ کھڑا ہونے کے لئے کوئی عملی اقدام کریں گے۔