پیر, اکتوبر 7, 2024

ایک آئیڈیل زندگی کا تصور

آج مختلف کتب کے باب الزہد و الرقاق کا مطالعہ کرتے ایک حدیث پڑھی اور بس اس پہ نگاہ رک گئیں۔ ایک ایسے دور میں جہاں دنیاوی مال و اسباب کے حصول کی ہوس عروج پہ ہو اور مقصد بنا کر زندگیاں اس کام کے لئے وقف کر دی جائیں، دنیا کی محبت میں کھو کر انسان اپنے پیدا کرنے والے اور پالنے والے خالق و پروردگار کو بھول کر اس کے آگے جھکنے اور سر تسلیم خم کرنے میں کوتاہی کرے، تنہائیوں کا عالم یہ ہو کہ دنیا کا ہر منظر چھوٹے بڑے کی دسترس میں ہو اور اسے ان مناظر سے لطف اندوز ہونے کا بھرپور موقع میسر ہو، تنہائیوں کے گناہ اس سے نماز کی لذت و چاشنی چھین لیں اور ہر وقت مال و اسباب کو جمع کرنے کی تمنا بے چین کئے رکھے، نبی کریمﷺ اپنی پسندیدہ مومن کے اوصاف و خد و خال بیان فرما کر گویا ایک آئیڈیل اور بہترین خوش حال زندگی کا تصور سمجھاتے ہوئے ذہن نشین کرا رہے ہوں۔ وہ تصور زندگی کیا ہے؟

میرے نزدیک اپنے دوستوں میں سے سب سے زیادہ قابل رشک مومن وہ ہے جس کے پاس مال و متاع کم ہو یعنی بہت زیادہ مال و جائیداد نہ رکھتا ہو، نماز اور سجدوں میں اللہ تعالٰی سے راز و نیاز کی لذت سے آشنا ہو، اللہ تعالٰی کی محبت میں فنا ہو کر اخلاص و یقین کے ساتھ عبادت و بندگی کا مجسمہ پیکر ہو، خلق خدا کی نگاہوں سے چھپ کر جب تنہا ہو تب بھی اس کی تنہائی خوف و خشیت الہی سے لبریز ہو اور اپنے رب کے حضور گریہ و زاری اور مناجات سے نگاہیں تر ہوں، گمنام ایسا ہو کہ دنیا اس سے واقف ہی نہ ہو اور نہ ہی اس کے آتے جاتے تعارف کے لیے لوگوں کی انگلیاں اس کی جانب اٹھیں اور رزق کا حال یہ ہو کہ اسے بقدر ضرورت اتنا ملے روز مرہ کی حاجات پوری ہوں اور گزر بسر ہوتا رہے، لیکن وہ اس حال میں بھی قناعت کرنے والا اور اپنے مالک و رازق سے راضی رہنے والا ہو۔ بس ایسی سعادت مند زندگی گزارتے ہوئے فرشتہ اجل کا پیغام لے آئے اور وہ اس جہاں فانی سے کامران ہو کر رب کے حضور پہنچے، نہ اس کے پیچھے زیادہ رونے والے ہوں اور نہ ہی بہت زیادہ ترکہ وہ چھوڑ آیا ہو۔

ایک بات کی وضاحت ضروری ہے کہ شہرت و مقبولیت میں فرق ہے۔ شہرت انسان خود حاصل کرتا ہے اور اس کے لئے تمام اخلاقی اقدار کو پامال کر کے حصول کی ہر ممکن کوششیں کرتا ہے جبکہ مقبولیت بغیر کسی طلب و چاہت کے اللہ تعالٰی کی جانب سے ہوتی ہے اور فرشتے اس کی محبوبیت کا اعلان کرتے ہیں۔

حدیث کا بندہ نے اپنے الفاظ میں مفہوم پیش کرنے کی کوشش کی۔ اب براہ راست الفاظ نبوی کو پڑھئے اور قلب و نگاہ کو جِلا بخشتے ہوئے اس مبارک زندگی کا تصور کیجئے، اپنا محاسبہ کیجئے کہ کیا ہماری زندگی بارگاہ نبوت میں قابلِ رشک ہے؟
عَنْ أَبِي أُمَامَةَ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : ” إِنَّ أَغْبَطَ أَوْلِيَائِي عِنْدِي لَمُؤْمِنٌ خَفِيفُ الْحَاذِ ، ذُو حَظٍّ مِنَ الصَّلَاةِ، أَحْسَنَ عِبَادَةَ رَبِّهِ، وَأَطَاعَهُ فِي السِّرِّ، وَكَانَ غَامِضًا فِي النَّاسِ لَا يُشَارُ إِلَيْهِ بِالْأَصَابِعِ، وَكَانَ رِزْقُهُ كَفَافًا فَصَبَرَ عَلَى ذَلِكَ ". ثُمَّ نَقَرَ بِإِصْبَعَيْهِ فَقَالَ : ” عُجِّلَتْ مَنِيَّتُهُ، قَلَّتْ بَوَاكِيهِ، قَلَّ تُرَاثُهُ ".

متعلقہ خبریں

مقبول ترین

متعلقہ خبریں