دور حاضر کا ایک بڑا نعرہ خواتین کی آزادی کا ہے، اس نعرہ کا مقصد خواتین کو آزادی دلانے کی کوشش کرنا اور اس کے لئے عملی اقدامات کرنا ہے۔ اس تحریر میں ہم اس بات کا جائزہ لیں گے کہ یہ آزادی کس سے لینی ہے اور اس کا مقصد کیا ہے؟ اگر اس نعرہ کا مقصد یہ ہے کہ خواتین کو مظالم سے نجات دلائی جائے، جیسے کہ غیرت کے نام پہ قتل کرنا، شوہر کا ظلم و زیادتی کرنا، خرچ ادا نہ کرنا، عزت و عصمت کا تحفظ کرنا، تو اس نعرہ میں ہم سب آپ کے ساتھ ہیں اور اس معاملے میں مظلوم کے ساتھ کھڑے ہونا دین کا اہم ترین تقاضا ہے۔ اور اگر اس نعرہ کا مقصد خواتین کے حقوق کا تحفظ کرنا ہے، جیسے میراث کا حق تو اس نکتہ پہ بھی ہم آپ کے ساتھ ہیں۔ خواتین کو میراث کا حق دلانے کے لیے جو بھی ممکنہ کوشش ہو یا عملی اقدام ہو، ہر طرح کا تعاون کرنے کے لیے حاضر ہیں۔
عملی صورت حال دیکھی جائے تو ان دو نکتوں پہ توجہ ہے ہی نہیں، اگر کسی جگہ ہے تو وہ بھی نہ ہونے کے برابر ہے۔ اس نعرہ کا بنیادی مدعا عورت کو اپنی معاشرتی اقدار، خاندانی روایات اور پھر دین سے آزادی ہے۔ یعنی عورت کوئی بھی کام کرنا چاہے تو اس کی آڑ میں نہ معاشرتی اقدار آئیں، نہ خاندان کا دباؤ ہو، نہ ہی دینی پابندی کا سامنا کرنا پڑے اور نہ گھر کے سرپرست کا کوئی دباؤ برداشت کیا جائے۔ یہ آزادی آج مطلوب ہے۔ عورت پڑھنے کے لیے دور دراز سفر کر کے وہیں قیام پذیر ہونا چاہے، یا کسی بھی نوعیت کی ملازمت کرنا چاہے، اداکاری یا رقص کے میدان میں جانا چاہے، مالی منافع کے حصول کے لیے کسی نوعیت کی فوٹو شوٹ کرانا چاہے یا کسی لڑکے کے ساتھ وقت گزارنا چاہے تو اسے کسی معاشرتی و گھریلو جبر کا سامنا نہ کرنا پڑے، اگر سامنا ہوا تو مختلف ادارے تعلیم و آزادی اور حق ارادی و خود مختاری کے نام پر اس کی پشت پہ کھڑے نظر آئیں گے اور اس کو بھرپور سپورٹ مہیا کریں گی۔
کچھ دیر ٹھنڈے دل و دماغ کے ساتھ انصاف سے سوچئے کہ کیا یہ آزادی ہے یا غلامی کی بد ترین شکل ہے؟ ایک عورت کو دینی و معاشرتی اقدار اور گھر کے تحفظ سے آزادی دلا کر آفس میں کسی غیر مرد کے ما تحت کر دینا کون سی آزادی ہے؟ گھریلو افراد کی خدمت کو معیوب بنا کر درجنوں سینکڑوں اجنبی لوگوں کے سامنے مسکرا کر خورد و نوش کی اشیاء پیش کرنا کون سی آزادی ہے؟ تعلیم کے نام پر اسے مخلوط ماحول میں اسے جھونک دینا جہاں اس کی عزت محفوظ نہ رہے، کون سی آزادی ہے؟ عورت کو اپنے جسم کی نمائش کرانے اور اس کے عوض قوم سے مالی منفعت اٹھانے پہ آمادہ کرنا محکومیت نہیں؟ کیا ایسے لوگوں کی ذاتی اور نجی زندگی کے معاملات تک لوگ دخل اندازی نہیں کرتے؟ پھر اس پہ قوم سے گلہ شکوہ ہی بے بجا ہے کہ ہماری نجی زندگی کی ہر بات جاننے کی کوشش نہ کی جائے۔ جب اس نے خود کو ان کے لئے ایک پراڈکٹ بنا کر پیش کر دیا ہے، وہ اس کی اداکاری کو کامیاب بنانے کے لیے ٹکٹ خرید کر جیب سے رقوم ادا کرتے ہیں، یا آن لائن ویوز اور وقت دے کر پروموٹ کرتے ہیں، جس کے بعد یہ عورت پورے معاشرے کی محکوم اور غلام کی حیثیت اختیار کر جاتی ہے، کیا اسے آزادی کا نام دیا جا سکتا ہے؟
پھر کیا آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اس آزادی کی کیا قیمت ہم نے چکائی ہے؟ خاندانی نظام کا شیرازہ بکھیر دیا گیا، گھروں کو لڑائی جھگڑے کی آماجگاہ بنا دیا گیا، عورت کو والد، بھائی اور شوہر کا باغی بنا دیا گیا، بچوں کا مستقبل داؤ پہ لگا دیا گیا، عورت کی عزت و عصمت کا جنازہ نکال دیا گیا، سینکڑوں عورتیں اپنی عفت و پاک دامنی سے ہاتھ دھو بیٹھیں، بیسیوں معصوم بچیوں کی زندگی درندگی کی نذر ہو گئی، طلاق و خلع روز مرہ کا معمول بن گیا، کتنی ہی لڑکیوں کو بے سہارا اور لا وارث بنا دیا۔ اس جیسے بیسیوں بھاری جرائم کے نتیجے میں ہم بہت بڑی قیمت ادا کر چکے ہیں اور آگے خدا جانے نوبت کہاں تک جائے گی؟ لیکن آخر اس سب کے بعد بھی ہم اندھے اور گونگے کیوں ہیں کہ ہمیں یہ صدائیں سنائی نہیں دیتی، یہ مناظر دیکھنے کو نہیں ملتے، اس آزادی کی حقیقت کو سمجھنے کے لیے کتنی اور قربانی چاہئے؟ کس نوعیت کی قربانی چاہئے؟ کب ہم جاگیں گے اور حقیقت پسندی سے ان حقائق کو بہ نگاہ قلب دیکھیں گے؟
اس آزادی کا انجام کار دین سے آزادی ہے، اللہ اور رسول سے آزادی دلا کر آج کی مغربی فکر کا غلام بنانا ہے اور اسے اپنے خونی رشتوں سے آزاد کرا کر قوم و معاشرے کا محکوم و ما تحت بنانا ہے، اس اصلیت کو ہم جتنا جلدی سمجھ جائیں، اسی میں خیر ہے ورنہ اللہ نہ کرے کہ اس کے لئے ہمیں اپنے گھر سے قربانی دینا پڑے اور پھر ہماری آنکھ کھلے اور یہ باتیں یاد آئیں لیکن تب بزبان حال ہوں کہا جا رہا ہوگا:
اب بچھتائے کیا ہوت
جب چڑیا چگ گئیں کھیت