بدھ, نومبر 20, 2024

کسی چیز, شخص، دن یا وقت کو مَنحوس سمجھنا

کچھ لوگ بعض چیزوں کو برا/منحوس سمجھتے ہیں جیسا کہ:

» فلاں دن ہمارے اوپر بھاری ھے
» فلاں دن کام مت شروع کرنا برکت نہیں پڑتی
» فلاں وقت میں کوئی کام نہیں کرنا چاہیے وگرنہ کام خراب ہوجائے گا
» فلاں چیز کو گھر میں رکھنا منحوس ھے
» اس شخص سے دور رہنا یہ منحوس ھے
» فلاں شخص بدشگونی کی علامت ھے

اسی طرح متعدد معاملات کو منحوس جانتے ہوئے ان سے بدشگونی لینا۔ ۔ ۔وغیرہ

یہ سب ایک غلط سوچ کا حصہ ہیں

اَصل:-

خوب سمجھ لیں یہ تمام باتیں ہم میں برِصغیر کے ہندوؤں سے آئی ہیں۔ خصوصاً کسی دِن اور وقت یا کسی شخص کو منحوس سمجھنے کا عقیدہ ہندوؤں کی دھرمی کتب میں درج ہیں، ملاحظہ ہوں:-

☆ مُہرتا:
ہندو مذہب میں خاص وقت کو کہا جاتا ھے اور یہ عقیدہ رکھا جاتا ھے کہ ہر کام کو کرنے یا کوئی چیز خریدنے یا سفر کرنے کے لیے کون سا مُہرتا فائدہ مند اور خوش قسمت رہے گا اور اس کے بر خلاف کیا گیا تو اسے نقصان کا باعث یعنی منحوس سمجھا جاتا ھے۔ جیسے:

* بچے کی پیدائش
* نوکری کی شروعات
* شادی کی تیاری
* مَنگنی کا وقت
* سفر شروع کرنے کا وقت
* دشمن سے لڑنے کا وقت
* کھانے/پینے کی شروعات

یہ سب اگر "شبھ مہرتا” میں کیے جائیں گے تو کامیابی ہو گی ورنہ نقصان ہو سکتا ھے۔
(ملاحظہ ہو:- شُبھ مُہرتا – از: ارتھر ویدا)

☆ بیوہ عورت:
ہندو دھرم میں بیوہ عورت کو کوئی مقام حاصل نہیں۔ بیوہ عورت کو بہت سخت بد شگونی کی علامت سمجھا جاتا ھے، اس کے ہاتھ کا کچھ پکا کھانا برا سمجھا جاتا ھے، کسی تقریب میں اگر وہ سفید کے علاوہ کچھ اور رنگ کے کپڑے پہن آئے تو وہاں موجود سب لوگوں کے لیے اس عورت کو منحوس سمجھا جاتا ھے۔ عورت کا جب خاوند مر جاتا ھے تو وہ ناپاک ہو جاتی ھے جبکہ وہ غسل بھی کر لے۔ تمام منحوس/بد شگن چیزوں میں سب سے زیادہ منحوس شے "بیوہ عورت” ہوتی ھے، اور بیوہ عورت کو دیکھنے کے بعد جو کام بھی سر انجام دیا جائے گا وہ ناکام ہی ہوگا، وہ کام کبھی کامیاب نہیں ہو سکتا۔
(ملاحظہ ہو:- Guide to the Religious Status and Duties of Women – cf. Section – IIA, pp. 54—7)

☆ زہریلا سانپ:
ایک سمجھدار مرد کو ایک بیوہ عورت سے (سوائے اس کی بیوہ ماں) اس طرح دور رہنا چاہیے جیسے انسان ایک زہریلے سانپ سے دور رہتا ھے کیونکہ بیوہ عورت "سانپ کے زہر” کی مانند ہوتی ھے۔

(ملاحظہ ہو:- ستریدھرماپادھاتی | ۱۸ ویں صدی – از: تریامباکا تھنجاوور)

☆ ہندو دھرم میں منحوس شگن:
ہندو دھرم میں متعدد چیزوں کے بارے میں منحوس شگن لیا جاتا ھے اور یہ سب باتیں ان کی دھرمی کتب میں درج ہیں جیسے کہ:

* کالا رنگ (داس ۱۹۸۲ء)
* شمال کی سمت (سِرینیواس ۱۹۵۲ء)
* جنازہ کی رسم (یاگی ۱۹۹۹ء)
* انتم سنسکار کے وقت موجود پادری

☆ پِتری/پِترو پَکشا:
ہر سال ہندو دھرم کے کیلنڈر میں ایک مہینہ ایسا آتا ھے جس میں ۱۶ قمری دن ایسے ہوتے ہیں جن کو منحوس سمجھا جاتا ھے، ان ۱۶ قمری دنوں کو پتری یا پرو پکشا (آباؤاجداد کو پوجنا) کہا جاتا ھے۔ اس کی وجہ سورج کا جنوب سے شمال کی طرف جانا ھے جس وجہ سے یہ دن بد شگونی کی علامت ہیں۔
(ملاحظہ ہو:- The Sacred Complex in Hindu Gaya – از: Vidyarathi, L P (1978))

☆ منحوس دن، وقت:
ہندو دھرم میں مہرتا کی تقسیم کرتے ہوئے معلوم ہوتا ھے کہ ان کے نزدیک ہر طرح کا کام کسی بھی لمحے کیا جائے تو اس وقت سے ان کا دھرمی عقیدہ جڑا ہوا ھے۔ یوں تو متعدد باتیں قابل ذکر ہیں مگر عوام کی سمجھ کے لیے کچھ مختصر باتیں ذیل میں درج کی جاتی ہیں:

• مرنے کا دن بھی شُبھ ہونا چاہیے اگر وہ کسی اور دن مر گیا تو یہ میت کے لیے بد شگنی کی علامت ھے اور اس کے لواحقین کو اس کی طرف سے بھگوان سے معافی مانگنی چاہیے۔
• اتوار، منگل، جمعہ اور ہفتہ کو کیا گیا کام بد شگن ہو سکتا ھے

☆ اَماوسیا:
اس سے مراد بنا چاند والی رات ھے جسے ہندو دھرم میں منحوس سمجھا جاتا ھے، مانا جاتا ھے کہ اس رات کو کالے جادو کا اثر سب سے زیادہ ہوتا ھے تو دیوی کالی اور دیوتا شیوا کی خصوصی پوجا کی جاتی ھے تاکہ اماوسیا کے خطرناک اثرات اور برے شگن سے بچا جا سکے۔ اس دن کو روزہ بھی رکھا جاتا ھے۔ روزہ رکھنے سے متعلق عقیدہ یہ ھے کہ اگر تو روزہ رکھنے والی شادی شدہ عورت ھے تو اس کے سر سے بیوہ پن یا بانجھ پن کے اثرات دور رہیں گے، اور جلد ہی اسے حمل ٹھہرے گا اور اگر کوئی اور شخص ھے تو اس کی مرادیں پوری ہوں گی۔

(ملاحظہ ہو: گارودا پرانا [صفحہ: ۸۲] – از: بی کے چاترویدی ۲۰۰۲ء)
(ملاحظہ ہو: Encyclopaedia of the Hindu World – از: Gaṅgā Rām Garg (1992))
(ملاحظہ ہو: گارودا پرانا [صفحہ: ۱۵۱] – از: بیبک دیبروئے| دیپاوالی دیبروئے)

حدیثِ ﷺ کا مفہوم ھے کہ:-
❞زمانے کو بُرا بھلا نہ کہو کیونکہ اللّٰه ﷻ ہی زمانہ ھے❝

حاصلِ کلام:-

کسی دن کو منحوس سمجھ کر کسی کام کو کرنے سے رُک جانا یا کسی وقت کو برا سمجھنا کہ مثلاً: جھاڑو دینا شام کو غلط، زوال کے وقت کھانا کھانا، فلاں دن کو نکاح غلط، فلاں دن کو خوشی جائز نہیں، فلاں شخص کی شکل منحوس، فلاں لمحہ منحوس۔ ۔ ۔وغیرہ یہ سب غلط ھے اور ذرا سوچیں کہ کیا اللّٰه ﷻ نے کسی دن کو منحوس بنایا ھے؟۔ ۔ ۔ہرگز نہیں! بلکہ یہ ہماری کم عقلی ھے کہ ہم ہندوؤں کے عقائد کو اپنا بیٹھے ہیں۔ برِصغیر میں ہندوؤں کے ساتھ رہتے ہوئے جاہل مسلمانوں نے ان کے عقائد اپنا لیے، کچھ کو اسلامی رنگ دے دیا گیا، جو نسل در نسل آج تک قائم ہیں، اور ان میں مزید اضافہ ہو رہا ھے۔ خوب ذہن نشین کر لیں کہ یہ تمام ہندوانہ عقائد پر مبنی لغو باتیں ہیں جن کا دینِ اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔ الغرض کوئی دن، وقت، شخص، لمحہ منحوس یا بد شگونی کی علامت نہیں ہوتا، ایسی فضول ہندوانہ سوچوں سے باہر نکلیں اور دوسروں کو بھی اخلاق سے آگاہ کریں۔ اللّٰه ﷻ ہماری راہنمائی فرمائیں۔ ۔ ۔آمین!

متعلقہ خبریں

مقبول ترین

متعلقہ خبریں