جامعہ کراچی کے شعبہ بین الاقوامی تعلقات کے زیر اہتمام 2روزہ بین الاقوامی کانفرنس بعنوان: ”اکیسویں صدی میں جنوبی ایشیاء اور علاقائی رابطہ“ کا انعقاد مقامی ہوٹل میں کیا گیا۔
جامعہ کراچی کے وائس چانسلر پروفیسرڈاکٹر خالد محمودعراقی نے افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ جنوبی ایشیائی خطے میں تین ایٹمی طاقتیں ہیں اور اس خطے کی اقتصادی ترقی،خوشحالی اور اس سے فائدہ اُٹھانے کے لئے سرحدی تنازعات کا حل اور امن و استحکام ناگزیر ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ پاکستان کو چین سے سیکھنے کی ضرورت ہیجوریاستوں کے ساتھ تنازعات رکھنے کے باوجود تجارت کو اس سے متاثر ہونے نہیں دیتابلکہ ہمہ وقت تجارت کو فروغ دینے کے لئے کوشاں رہتاہے۔
اس موقع پر رئیس کلیہ فنون وسماجی علوم جامعہ کراچی پروفیسرڈاکٹر شائستہ تبسم نے کہاکہ افغانستان کی طرف سے علاقائی رابطوں کو درپیش چیلنجزکو عالمی منظرنامے کو مدنظررکھتے ہوئے دیکھنے اور اس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
انہوں نے جنوبی ایشیاء کی متنوع ثقافتوں، تاریخوں، معیشتوں اورجغرافیائی قربت سے ہٹ کر خطے کے باہمی انحصار کو ترقی کے لیے اہم قرار دیا۔ڈاکٹر شائستہ نے جنوبی ایشیائی ممالک کو ضم کرنے، ترقی کی نئی راہیں کھولنے، تجارتی راستوں، بنیادی ڈھانچے کے نیٹ ورکس، اور مشترکہ اقتصادی پالیسیوں کے ممکنہ اقتصادی فوائد پربھی تفصیلی روشنی ڈالی۔
ڈاکٹر فرحان نے چین وبھارت کی 25 ملین ڈالرز سے تجاوزکرتی تجارت کی مثالیں دیتے ہوئے کہا کہ بحرانوں کے باوجود استحکام اور امن ضروری ہے۔انہوں نے پاکستان اور بھارت کے مابین کشیدہ تعلقات کی وجہ سے درپیش چیلنجوں پر روشنی ڈالی اور کشمیر کے بارے میں بھارت کی پالیسی کو یکطرفہ تنازعہ قرار دیا اور اس کے پاکستان کے امیج پر پڑنے والے اثرات کی نشاندہی کی اور بین الاقوامی میدانوں میں پاکستان پر اس پالیسی کے نتائج کا ذکر کیا۔
چیئر مین شعبہ بین الاقوامی تعلقات جامعہ کراچی پروفیسرڈاکٹر نعیم احمد نے کہاکہ چین اور امریکہ کے مابین جنوبی ایشیا کے مرکزی نقطہ بننے اور چین کا مقابلہ کرنے کے لیے امریکہ وبھارت کے درمیان بڑھتے ہوئے تعلقات اور طاقت کے علاقائی توازن کو متاثر کرنے والے چین کے عروج پرتبادلہ خیال کرتے ہوئے واضح کیا کہ اگرچہ چین امریکہ کے لیے فوری خطرہ نہیں بن سکتا، لیکن وہ اپنی پالیسیوں کے تحت اس کی بالادستی کو چیلنج کرتاہے۔
معروف مصنف اور خارجہ پالیسی کے ماہراحمد راشد نے امن کو فروغ دینے کے لیے جنوبی ایشیائی ممالک کے مابین توانائی کے تعاون کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہاکہ پاک چین تعلقات کو مزید مضبوط کرنے کے لئے بلوچستان میں امن ضروری ہے۔بھارت کی طرف سے تجارتی بات چیت میں شامل ہونے سے انکاراور باہمی مذاکرات کی ضرورت کو تسلیم کرتے ہوئے پاکستان کے نقطہ نظر میں ایک مثالی تبدیلی کی ضرورت ہے۔انہوں نے پاکستان کی اسٹریٹجک اہمیت اور پڑوسی ممالک جیسے بھارت اور افغانستان کے ساتھ تنازعات کی وجہ سے پرامن تعلقات برقرار رکھنے میں اس کی جدوجہد کو اجاگر کیا۔
ڈاکٹر ایلنورزینونے Dr. Ellinor Zeino, Regional کہا کہ عالمی فورمز اور بالخصوص یورپ میں پاکستان کی آوازکو بلند کرنے کی ضرورت ہے، انہوں نے کہا کہ پاکستان کی آواز کو بلند کرنے کے لیے کانفرنسز، ہائبرڈ ورکشاپس اور سیمینارز جیسے پروگراموں کا انعقاد ضروری ہے۔انہوں نے جنوبی ایشیا میں علاقائی رابطوں کے مسائل بشمول ماحولیاتی تبدیلیوں کو حل کرنے میں کانفرنسزکی اہمیت پر روشنی ڈالی۔
جرمن قونصلیٹ کراچی کے ڈپٹی ہیڈ آف مشن اینڈریاس ویگنر نے گفت و شنید کے لیے عصر حاضر میں مصنوعی ذہانت کے حوالے سے تفصیلی گفتگو کی اور ڈیجیٹل پلیٹ فارمز کی طرف سے پیش کردہ چیلنجزاور مواقعوں پر تبادلہ خیال کیا۔انہوں نے اس طرح کی کانفرنسز کو وقت کی اہم ضرورت قراردیا۔
ڈاکٹر رابعہ نے پاکستان کی معیشت کو اشرافیہ کی زیر قیادت اثرات سے نکلنے پرزوددیتے ہوئے کہا کہ جنوبی ایشیا کے جغرافیائی سیاسی منظرنامے کو نئی شکل دینے کے لیے اقتصادی تعاون اور رابطیکا فروغ ناگزیر ہے۔انہوں نے جنوبی ایشیا میں جغرافیائی سیاست سے جیو اکنامکس کی طرف لازمی تبدیلی اور 21ویں صدی میں علاقائی رابطے کی اہمیت پر زور دیا۔