ہمارے معاشرے میں شادی بیاہ کے موقع پر ایک نئی رسم پیدا ہو چکی ھے جسے "برات یا رخصتی” کی رسم کہا جاتا ھے۔
* لڑکے والے دلہن کو اپنے گھر لانے کے لئے لڑکی کے گھر سینکڑوں لوگوں پر مشتمل ایک مجمع کی صورت میں جاتے ہیں اور خوب دھوم دھام، ڈھول، باجا، آتش بازی وغیرہ جیسے گناہ کے کام کرتے ہوئے جاتے ہیں۔ جب پہنچتے ہیں تو لڑکی والوں کی طرف سے کھانے کی باقاعدہ تقریب کا بندوست ہوتا ھے (ملاحظہ ہو:- قسط – ۳۲) تو یہ سب ایک رسم بن چکی ھے جس کے بغیر آج کل شادی نامکمل سمجھی جاتی ھے، اور اگر اس رسم کو انجام نہ دیا جائے تو طعن تشنیع کا سامنا کرنا پڑتا ھے۔
سو یہ رسم غلط ھے
اَصل:-
یہ برِصغیر میں ہندوؤں خصوصاً پنجاب کے سکھوں کی ایجاد کردہ رسم ھے جسے مسلمانوں نے من و عن اپنا لیا۔ اپنی شادیوں میں ایک نئی رسم "رخصتی و برات” کا اضافہ کر لیا جو کہ اب آ کر لازم جز بن کر رہ گیا ھے۔ لوگ اس کی اَصل جانے بغیر نسل در نسل اس فضول رسم کو منائے جا رہے ہیں۔
☆ ہندوؤں کی رسم:
جنوبی ہندوستان کے ہندوؤں کی شادیوں میں ایک رسم لازمی جز ھے جس میں دلہے کو سہرا پہنا کر (ملاحظہ ہو: قسط – ۴۴) خچر پر بیٹھا کر اور ساتھ بینڈ باجے، ڈھول و ناچ گانے کے ساتھ دلہن کے گھر لے جایا جاتا تھا۔ دلہے کے عزیز و اقارب ہمراہ ہوتے ہیں۔ اسے برات کہا جاتا ھے۔ جو لوگ ہمراہ ہوتے ہیں انہیں براتی کہتے ہیں۔ ڈھول بجانا اس رسم کا لازمی جز ھے۔
(ملاحظہ ہو: "The marriage parties”, The Hindu, 2009-07-03, retrieved 2010-06-17)
(ملاحظہ ہو: K. N. Pandita; Kumar Suresh Singh; Sukh Dev Singh Charak; Baqr Raza Rizvi (2003), Jammu & Kashmir (Volume 25 of People of India: State Series), Anthropological Survey of India)
☆ سکھوں کی رسم:
دلہا گھوڑے پر یا ہاتھی پر دلہن کے گھر آتا ھے، اپنے ساتھ "کِرپن” نامی ایک خنجر بھی رکھا ہوتا ھے جو سکھوں کی شان و شوکت کی علامت ھے۔ برات کے موقع پر مِلنی کی رسم بھی منعقد کی جاتی ھے۔
(ملاحظہ ہو: Paulias Matane; M.L. Ahuja (2004), India: a splendour in cultural diversity, Anmol Publications Pvt. Ltd)
(ملاحظہ ہو: Murray J. Leaf (2009), Human Organizations and Social Theory: Pragmatism, Pluralism, and Adaptation)
اِضافی:-
شریعت کا سبق سادگی اور پردہ ھے۔ رخصتی کا کوئی خاص طریقہ شریعت میں نہیں ھے، نہ ہی اسلام نے شادی کے موقع پر کسی رسم و رواج کا پابند کیا ھے۔
رخصتی کا صحیح طریقہ:
لڑکی کے گھر والے چاہے اپنے گھرانے کی کسی خاتون یا خادمہ کے ساتھ یا لڑکے والوں کے یہاں سے عورتیں آئی ہوں تو ان کے ہم راہ دلہن کو بھیج دیا جائے۔ یا پھر چیدہ چیدہ بہت قریبی رشتے دار لڑکی والوں کے گھر جائیں اور دلہن اپنے گھر لے آئیں۔ اس موقع پر لڑکی والے کھانا کھلا دیں تو کوئی مضائقہ نہیں جیسے گھر آئے مہمانوں کی دعوت کر دی جاتی ھے، کیونکہ 8،10 لوگوں کے جانے سے نہ یہ برات کی رسم بنی نہ ہی برات کے نام پر جو لغویات کی جاتی ہیں وہ ہوئیں اور نہ ہی 8،10 لوگوں کے لیے لڑکی والوں کو کوئی وسیع ہال بک کروا کر باقائدہ کھانے کی تقریب پر خرچہ کرنے کی ضرورت پڑی۔ کچھ مخصوص احباب لڑکی والوں پر بوجھ بنے بغیر ان کا اور اپنا فضول خرچہ کیے بغیر لڑکی کو لے کر آ جائیں اور پھر ولیمہ کی تقریب اِستطاعت کے مطابق جتنی خوبصورتی سے ہو سکتی ھے اِسلامی حدود میں رہتے ہوئے منعقد کریں۔ مگر یہ نہیں کہ پورا مجمع دلہن کو لینے کے بہانے آجائے،
پٹاخے
آتش بازی
بے پردگی
ناچ گانا
ڈھول موسیقی
جیسا کہ آج کل رواج بن گیا ھے ان سب میں فضول خرچی کرتے ہوئے آئیں اور پھر لڑکی والوں کے گھر پہنچ کر ان پر "برات کا کھانا لڑکی والوں کی ذمہ داری” کہہ کر مسلط ہو جائیں۔
حاصلِ کلام:-
ہمارے سامنے تو رسول الله ﷻ ﷺ کی مثال ھے کہ کیسے حضور اکرم ﷺ نے اپنی صاحب زادی حضرت سیدہ فاطمہؓ کو اُم ایمن ؓ کے ساتھ حضرت علی ؓ کے ہاں بھیج دیا تھا۔ برات کی باقاعدہ تقریب ہندوؤں و سکھوں کی ایجاد ھے۔ مسلمانوں کو اسے شادی کی ایک رسم بنانے سے گریز کرنا چاہیے اور دوسروں کو بھی اس کی اصلیت بتلانی چاہیے۔ یقین جانیے آپ اگر اپنی شادی (نئی زندگی) کی شروعات غیر اسلامی رسومات کی پیروی کرتے ہوئے کریں گے تو آپ کی اگلی زندگی پر اس کا اثر ضرور آئے گا۔ برات کی رسومات میں شمولیت اختیار کرنے سے بھی گریز کریں اور اگر موقع ملے تو عملی طور پر "ایک مسلمان کی شادی” کا نمونہ دوسروں کے سامنے رکھیں۔ الله ﷻ ہمیں شادیوں کو ایک مذہبی تہوار سمجھ کر منانے کی توفیق عطا فرمائیں۔ ۔ ۔آمین!