ہمارے معاشرے میں ایک سوچ کہ:
* ولیمہ کا کھانا لڑکے والوں کے جبکہ برات کا کھانا لڑکی والوں کے سر ہوتا ھے
* برات (رخصتی) کا کھانا لڑکی والوں پر کِھلانا لازم ھے
سو یہ ایک سوچ ھے
اِصل:-
برِصغیر میں ہندوؤں میں جہاں جہیز وغیرہ کا رواج لازمی تھا وہیں برات (رخصتی) کے وقت جو دلہے والے آئے ہوتے ہیں اُن کو کھانا کھلانے کی زمہ داری بھی لڑکی والوں پر تھی اور اس کو اتنے التزام سے کیا جاتا تھا کہ لڑکی والے اگر غریب ہوں تب بھی وہ قرضے لے کر کھانا کھلاتے اور اگر نہ کھلاتے تو ناراضی اور بے عزتی تک بات پہنچ جاتی۔
▪ یہاں پر دو باتیں مدِنظر ہیں:
ایک تو یہ کہ براتیوں کو کھانا اگر لڑکی والی اپنی خوشی و استطاعت کے مطابق کھلا دیتے ہیں تو کوئی مضائقہ نہیں
دوسرا یہ کہ برات اگر کچھ احباب پر مشتمل ھے تو درست اگر وہ ایک لشکر (جیسے آج رواج بن گیا ھے) کی شکل میں ھے تو یہ خلاف سنت اور بہت ساری برائیوں کا مجموعہ ہونی کی وجہ سے درست نہیں۔
☆ ہندوؤں کی رسم:-
ہندو خصوصاً پنجاب اور جنوبی ہندوستان کے علاقے کے لوگوں میں یہ "برات”کی تقریب کی شروعات ہوئی جو بہت ساری رسومات پر مشتمل ایک تقریب ہوتی ھے جس میں دلہا مگر درِحقیقت اس کے تمام رشتے دار، دوست، ہمسائے دلہن کو لینے اس کے گھر جاتے ہیں۔ لڑکی والے ان تمام سینکڑوں لوگوں کے بیٹھنے، کھانے پینے کا انتظام کرتے ہیں۔ تاریخ سے یہ بات معلوم ہوتی ھے کہ اگر لڑکی والوں کی طرف سے کچھ کمی یا کوتاہی ہو جائے تو انہیں طعن تشنیع کا سامنا کرنا پڑتا حتہ کہ لڑکے والے دلہن کو لیے بغیر برات لے کر واپس چلے جاتے، لڑکی والے غریب ہوں تو قرضے لے کر کھانے پینے کا انتظام کرتے ہیں۔
(ملاحظہ ہو:- Paulias Matane; M.L. Ahuja (2004), India: a splendour in cultural diversity, A)
(ملاحظہ ہو:- "The marriage parties”, The Hindu, 2009-07-03, retrieved 2010-06-17)
اِضافی:-
یہ سب کس لیے؟ کیونکہ لڑکی والے ڈرتے ہیں اس بات سے کہ ہماری بیٹی سے تعلق نہ ختم ہو جائے یا بعد میں لڑکی کو طعن و تشنیع کا سامنا نا کرنا پڑے۔ لڑکی والے لڑکے والوں سے گھبراتے ہیں کہ ان کے سینکڑوں کے مجمے کو اگر کھانا نا کھلا سکے تو ہماری ناک کٹ جائے گی یا دلہا میاں اور اس کا خاندان ناراض نہ ہو جائے۔ یہ سب صرف و صرف شادی جیسے مذہبی تہوار کو سنت ﷺ کے خلاف کرنے کا نتیجہ ھے۔ پہلے آپ ایسے گھر میں بیٹی نہیں دیتے جن کو دین اسلام سے کوئی لگاو ہو، دوسرا آپ کو شادی کی تقریب اسلامی طریقے سے کرتے ہوئے شرم آتی ھے کہ بھائی "لوگ کیا کہیں گے” ایک ہی/پہلا بیٹا یا بیٹی تھی اور کنجوسی کی انتہا !۔
اوّل تو شادی کا سارا خرچ مرد کی ذمہ داری ھے شریعتِ اسلام میں لڑکی والوں کا ایک روپے کا خرچہ بھی نہیں۔
دوم جس شادی کا ہمیں دینِ اسلام نے سبق دیا اس میں نہ تو برات کی رسم کا تصور ھے اور نہ ہی برات کے کھانے کا۔
حاصلِ کلام:-
برات کی تقریب منعقد کرنا اور اس پر ہزاروں لاکھوں روپے خرچ کرنا خلاف سنت ﷺ ھے، دین اسلام کے بتلائیے گئے طریقہ کے خلاف ھے۔ مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ برات کی رسم سے دور رہیں نہ خود کریں اور دوسروں کو بھی سمجھائیں کہ جیسے آج کل برات کا رواج چل رہا ھے یہ خالص ہندوؤں اور سکھوں کی ایجاد ھے۔ ہاں البتہ کچھ احباب جائیں جس سے دلہن والوں پر کوئی بوجھ بھی نہ بنے، نہ ان کو بڑے بڑے ہال بک کروانے پڑیں اور وہ آسانی سے کھانا کھلا دیں اور بیٹی کو رخصت کردیں (چاہے وہ اس سب کی استطاعت بھی رکھتے ہوں)، اسے ایک رسم کی شکل نہ دی جائے اور نہ ہی لازم و ملزوم سمجھا جائے تو جیسے مہمانوں کو گھر میں کھانا کھلا دیا جاتا ھے انہیں کھلا دیں تو کوئی مضائقہ نہیں۔ اللّٰه ﷻ ہمیں سنت ﷺ کے مطابق شادی کی تقریبات کرنے والا بنا دیں۔ ۔ ۔آمین!