مذہبی عسکری تنظیموں کا سب سے بڑا المیہ یہ ہوتا ہے کہ یہ دعوے اپنے حجم اور طاقت سے کئی گنا زیادہ کرتی ہیں ۔ جس کا خمیازہ پوری قوم کو بھگتنا پڑتا ہے ۔ غزہ اور لبنان کی کہانی بھی یہی ہے ۔ مشرق وسطی کی بیشتر عسکری تنظیموں نے اسرائیل یا دیگر مغربی قوتوں کے زیر سایہ تقویت پائی ہے۔ یہ عالمی گریٹ گیم کا حصہ ہیں اور اسرائیل ان کی بڑھتی ہوئی عسکری طاقت کی باقاعدہ نگرانی کرتا رہاہے۔
مشرق وسطی کی عوامی مزاحمت کو بڑی مہارت کے ساتھ چند تنظیموں کے ہاتھ میں دے دیا گیاہے۔ تاکہ عرب عوامی بغاوت کا خطرناک کانٹا نہ رہے۔ یہ سلطنت عثمانیہ کے سقوط کے بعد بننے والے اگلے پلان کا حصہ ہے ۔ کہ جن ممالک کو سلطنت عثمانیہ کی بنیاد پر کھڑا کیا گیا تھا ان کے مقابلے میں متوازی تنظیمیں قائم کی جائیں تاکہ کہیں انہیں حریت اور آزادی جیسے خواب نظر نہ آنے لگ جائے ۔
یہ ممالک سیکورٹی خطرات میں ہوں اور عالمی قوتوں کے ہتھیاروں اور تعاون کے لئے مجبور ہوں
آپ مشرق وسطی کے عسکری منظرنامے پر نظر دوڑاوگے تو سمجھ جاوگے۔ لبنانی حزب اللہ نے 1982ء میں لبنان کے جنوب میں اس وقت آنکھ کھولی جس وقت جنوبی لبنان اسرائیل کے قبضے میں تھا ۔ اسرائیل 2000ء میں لبنان سے نکلا تو حزبِ اللہ لبنانی فوج کے مقابلے میں ایک مضبوط عسکری قوت کے طور پر موجود تھی۔
یہی حال اسرائیل کے خاموش تعاون سے غزہ میں ہوا۔ جہاں الفتح اور اس جیسی دیگر قوم پرست مزاحمتی تنظیموں کی جگہ چوں چوں کا مربہ بنالیا گیا۔
عراق کو ہی دیکھ لیجئیے ۔ جہاں امریکہ اور مغربی نیٹو کے حملے سے قبل امن تھا۔ مگر امریکہ نے 2011ء میں انخلا کیا تو پیچھے د۔۔۔ ا۔۔ ع ۔۔۔۔ ش سمیت الحشد الشعبی کی 47 عسکری تنظیمیں ہزاروں تربیت یافتہ کارکنوں اور جدید ہتھیاروں سے لیس کھڑی تھیں ۔
شامی لڑائی کے دوران درجنوں سنی عسکری تنظیمیں بنیں۔ النصرہ فرنٹ ،ہو احرار الشام ہو یا دیگر لاتعداد تنظیمیں یہ سب اسی منصوبے کا حصہ ہے ۔یہ سب اسرائیل کی سرحد پر سستارہی ہیں ۔ صرف گولان ہائٹس کے پاس حزب اللہ کے چالیس ہزار مسلح تربیت یافتہ موجود ہیں۔
اس معاملے میں ایران خوش نصیب واقع ہوا ہے ۔ اور میرا خیال ہے کہ ایران مشرق وسطی کا سب سے ذہین ترین ملک ہے۔ اس کا پروپیگنڈا انتہائی مضبوط رہا ہے۔ ایران خطے کی تمام تنظیموں سے بناکر رکھتا ہے ۔بلکہ بہت سوں کی ڈوری بھی طہران کے ہاتھ میں ہے ۔ ایران نے اپنی سرحد پر لڑی جانے والی عراق جنگ سے خود کو بچا لیا ۔ نقصان اس لڑائی میں عربوں کا ہور ہاہے۔
1982ء میں حزب الامل نے لبنان میں فلسطینی مہاجرین کا قتل عام کیا ۔ مارچ 2011ء سے شامی لڑائی شروع ہوئی تو حزب اللہ نے شام جاکر بشار الاسد کی حکومت بچانے کےلئے عربوں کا قتل عام کیا۔ فلسطینی مہاجرین کیمپوں کو تہس نہس کردیا ۔ یرموک کیمپ میں یہی صورتحال تھی جو آج غزہ میں ہے۔
پھر حزب اللہ نے غزہ کے حق میں بیانات دے کر اپنے گناہ معاف کروالیے۔ غزہ سے سات اکتوبر 2023ء کو ح م اس چند راکٹ داغ دیے۔ اسرائیل کو غزہ پر جارحیت کا جواز فراہم کردیا ۔ جنگ کے آغاز میں وہ بڑھکیں ماریں کہ دنیا کسی بڑے معجزے کے انتظار میں رہ گئی اور اسرائیل مصر کے بارڈر تک قبضہ کرتے ہوئے پہنچ گیا۔ آج غزہ کی اینٹ سے اینٹ بج چکا۔ غزہ کا ہر بچہ اور عورت بھیک مانگنے پر مجبور ہے۔ دنیا آہستہ آہستہ غزہ کو بھولنے لگی ہے۔ ابھی لبنان کہانی میڈیا کی توجہ کا مرکز بنی ہوئی ہے ۔ کل کو یمن کا نام میڈیا پر ہوگا اور فلسطین پس منظر میں ایک بھولی بسری سطر کی شکل اختیار کرلے گا۔
اب کہانی لبنان اور مغربی غزہ تک پھیل گئی ہے ۔ لبنانی عوام بھی حزب اللہ کے جذبات کی بھاری قیمت ادا کرے گی۔ جس کے بعد یمن کی باری ہے۔ جہاں انصار اللہ الحوثی کے گرم دم بیانات کا سلسلہ جاری ہے۔
اسرائیل آگے بڑھ رہاہے۔ اور بند باندھنے والا کہیں نظر نہیں آرہا ۔ عرب لیگ لبنان پر اسرائیلی حملوں پر مکمل خاموش ہے۔ حالانکہ یہ جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس کا موقع ہے۔ مگر عرب کچھ ذلت اور کچھ دولت کے اثرات کےزیر اثر ہیں۔
کل اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب میں نیتن یاہو نے کہا ہے کہ اسرائیل چھ محاذوں پر جنگ جیت کر دکھائے گا اور سعودی عرب کے ساتھ تعلقات قائم کرنے کا خواب بھی مکمل کرے گا۔
تحریر: علی ہلال