نبی کریمﷺ کا مکی دور امتحانات و مشکلات میں گھرا ہوا نظر آتا ہے، ان آزمائشوں میں سے بڑی اور اہم آزمائش سماجی بائیکاٹ تھا۔ نبی کریمﷺ اور آپ کے اصحاب دینی دعوت کی اشاعت میں مصروف تھے، ہر قسم کی سختی اور حالات کے باوجود ان کے عزم و استقلال میں کمی کا عنصر پیدا نہیں ہو رہا تھا، اس موقع پہ کفار نے نبی کریمﷺ اور آپ کے اصحاب کو دینی دعوت سے روکنے کے لیے ایک اور حربہ اختیار کیا کہ آپ کے ساتھ ہر قسم کے تعلقات منقطع کر کے تنہا کر دیا جائے اور ضروریات زندگی کا سامان روک لیا جائے، تاکہ یا تو سسک کر مر جائیں یا پھر ایمان سے منحرف ہو جائیں۔
مسلمانوں کو اس موقع پہ ایک سخت آزمائش کا سامنا کرنا پڑا، اس آزمائش کی نوعیت باقیوں سے مختلف تھی، اس سے قبل انفرادی آزمائشیں آتی رہیں، بعض پہ کم آئیں اور بعض پہ زیادہ آئیں، لیکن یہ ایک ایسی آزمائش تھی جو سب پہ مشترکہ طور پہ آئی اور اس میں سب برابر کے شریک تھے۔ سیرت نگاروں نے اس آزمائش کی حکمتوں میں سے ایک حکمت یہ بھی لکھی ہے کہ چونکہ ہجرت اور مدینہ منورہ کی ریاست کے قیام کا عملی دور کا آغاز ہونے جا رہا تھا، سو اس لئے تمام اہل ایمان کی تربیت کے لئے اس اجتماعی آزمائش سے گزارا گیا۔ چنانچہ تین سال تک یہ بائیکاٹ جاری رہا، اس دوران کھانا پینا، معاشرتی تعلقات سمیت ہر چیز ان پہ بند کر دی گئی، بھوکا پیاسا رکھ کر انہیں دین سے ہٹانے کے لیے کفار آخری حد تک کوشاں رہے لیکن وہ اس میں ناکام ہوئے اور مسلمان صبر و استقامت کا پہاڑ بنے رہے، نتیجتا ایمان کی سلامتی کے ساتھ اس آزمائش سے معجزاتی طور پہ خلاصی پا کر سرخرو ہوئے۔
اس واقعہ کو ذہن نشین کرنے کے بعد آج غزہ کے حالات و واقعات کا جائزہ لیا جائے تو بہت حد تک مماثلت نظر آتی ہے۔ انبیاء کی مقدس سرزمین اور قبلہ اول پہ صہیونی قبضے کے بعد فلسطینی اہل ایمان انبیاء کے اس ورثے کی واپسی اور تحفظ کے لئے کمر بستہ ہو گئے اور کئی دہائیوں سے اس کے لئے لڑتے اور قربانیاں دیتے آ رہے ہیں۔ لیکن اہل غزہ کو اس سطح کی اجتماعی آزمائش کا پہلا کبھی سامنا نہیں کرنا پڑا، بلکہ جزوی طور پر مختلف اوقات میں مختلف علاقوں میں ظلم و فساد کے واقعات رونما ہوتے رہے، مگر پچھلے دس ماہ سے ان کا محاصرہ کر کے جس طرح مظالم و مصائب کی تاریخ دہرائی جارہی ہے، اس سے شعب ابی طالب کا واقعہ بار بار دل و دماغ میں گردش کرتا ہے، ان کا ناطہ پوری دنیا سے توڑ دیا گیا ہے، سماجی و معاشرتی تعلقات منقطع کر دئیے گئے، کھانے پینے کی ترسیل بند کر دی گئی اور کڑی نگاہ رکھی جا رہی کہ کوئی امدادی سامان نہ پہنچایا جا سکے، عسکری ہتھیار کے ذریعے ان کو مستحکم ہونے کا موقع نہ دیا جائے، سو مقصد یہ ہے کہ بمباری کر کے اور بھوکا پیاسا رکھ کر ایسی نسل کشی کی جائے کہ ان کا نام و نشاں مٹ جائے۔ لیکن اسلام کے ان جانبازوں نے شعب ابی طالب کی یاد تازہ کرتے ہوئے تمام مشکلات و آلام کے باوجود یہ عزم کر رکھا ہے کہ وہ کسی صورت اپنے موقف سے پیچھے نہیں ہٹیں گے، ہر طرح کی قربانی دیں گے لیکن اپنی سرزمین واپس لیں گے اور مسجد اقصی کی حرمت پہ آنچ نہیں آنے دیں گے۔
شعب ابی طالب کی طویل صبر آزما اور کٹھن آزمائش کے بعد نصرت و نعمت الٰہی کا نزول شروع ہوا، معراج کی عظمتوں سے مالا کیا گیا اور بیعت عقبات سے ہجرت کی راہیں ہموار ہو کر ایک آزاد ریاست کے قیام کی کوششیں رنگ لانے لگیں، اسی طرح باری تعالٰی کی ذات سے واثق امید ہے کہ یہ اجتماعی امتحان و آزمائش اہل غزہ کے لئے نصرت و فتح کا پیغام لائے گی اور اس صبر آزما گھڑی کے بعد تاریخ کا ایک نیا باب رقم کیا جائے گا اور انبیاء کی سرزمین پہ ایک آزاد ریاست کے قیام کا پیش خیمہ ثابت ہوگی۔
ان شاء اللہ اب یہ آخری اور حتمی دور ہوگا جس میں اہل غزہ سرخرو ہوں گے اور مسجد اقصی کو صہیونی غاصبوں کے ناپاک وجود سے آزادی کے بعد اہل ایمان تکبیر کی صدائیں بلند کرتے ہوئے اقصی کی مقدس و مبارک زمین پہ سجدہ ریز ہوں گے۔ صہیونی درندگی کا خاتمہ اب قریب سے قریب تر ہو چکا، یہ ناپاک دشمن اپنے عبرت ناک انجام سے دوچار ہونے کو ہے، اور اہل ایمان کی بشارت کی نوید چہار دانگ عالم میں سنائے دے گی۔ اللہ کرے کہ ہم تب تک زندہ رہیں اور ہمیں بھی یہ مبارک صدائیں سننا نصیب ہوں اور مسجد اقصی کے سائے میں دربار الٰہی میں اپنی پیشانی جھکانے کی سعادت حاصل ہو۔ آمین