نہتی معصوم لاشوں نے، ماؤں کی دل سوز پکار نے، نوجوانان ملت کی تکبیر کی بلند و بالا صداؤں نے، مجا ہد ین کے مضبوط عزائم نے ایک ظالم و غاصب ناجائز بچے کے خلاف پوری دنیا کو صدائے احتجاج بلند کرنے پر مجبور کر دیا ہے۔ دنیا کے کونے میں بسنے والا ہر درد مند شخص ان مظلوموں کی حمایت کا علم لیے کھڑا نظر آتا ہے بطور خاص امت مسلمہ کا ہر طبقہ انتہائی کرب اور تکلیف دہ کیفیت میں ہے اپنے بھائیوں کی اس حالت زار پر رنجیدہ اور دل گرفتہ ہے۔ چاہے وہ جسمانی طور پر دنیا کے کسی خطے میں ہو، اپنی دنیاوی ضرورت کی وجہ سے وہ مشغول ہو، کسی بھی حال و کیفیت میں ہو لیکن وہ قلبی و روحانی طور پر اپنے بھائیوں کے ساتھ ہوتا ہے، ان کے غم میں گھلتا رہتا ہے، ان کی فکر میں پریشان رہتا ہے، ان پر ٹوٹنے والے وحشیانہ مظالم و مصائب اور المناک مناظر سامنے آنے پر ضبط کے تمام بندھن ٹوٹ جاتے ہیں اور وہ گریہ و زاری کرتے ہوئے رب ذو الجلال کے حضور اپنی بے بسی، کوتاہی اور مجبوری کا اعتراف کرتا ہے اور اس جرم عظیم پر معافی طلب کرتے ہوئے اپنے بھائیوں کی صحت و عافیت اور ضروریات کے فراہمی کے لیے ہاتھ پھیلائے عرضی کا مجسمہ پیکر ہوتا ہے، شہید ہونے والوں کی درجات کی بلندی اور پیچھے رہنے والے کے صبر کے لئے دعائیں کرتا ہے۔
اس جنگ باقی پہلو اپنی جگہ لیکن اس نے امت مسلمہ کا رشتہ اپنے حرم مقدس سے ایک بار جوڑ دیا، اسے پھر سے اس مبارک و مقدس سرزمین کی حساسیت سے روشناس کرا دیا، اس کی مرکزیت کو قائم رکھنے اور کسی قسم کا سمجھوتہ نہ کرنے کا ولولہ اجاگر کیا۔ ان شاء اللہ خیر و شر کے اس معرکہ میں آخر کار فتح ان اہل ایمان اور خداوند قدوس پر توکل کرنے والے مجا ہدین کے نام ہوگی اور بیت المقدس ان ظالموں کے چنگل سے چھین کر اہل ایمان کے ماتحت ہوگا اور ایک بار پھر آزادی و خود مختاری کے ساتھ تکبیر و تہلیل کی صدائیں بلند ہوں گی، ذات باری تعالٰی کے نام سے اس کے در و دیوار روشن ہوں گے، ذکر و تعلیم سے اس کے حلقے آباد ہوں گے اور یوں ایک بار پھر عالم اسلام کا مرکز بن کر ابھرے گا اور انسانیت خیر کے اس چشمے سے سیراب ہوگی۔
ہاں ایک طبقہ وہ بھی ہے جس کے پاس اقتدار و قوت ہے، وسائل و آلات ہیں، جنگی سامان اور شوکت اسلام سے لیس ہے، مظلوم مسلمان، تڑپتے بلکتے بچے، آہ و فغاں کرتی مائیں بہنیں انہیں پکار رہی ہیں، فریاد کر رہی ہیں، جانیں ہتھیلی پہ رکھے لڑنے والے غیور و سرخیل مجا ہد ین ان کی جانب امید کی نگاہیں رکھے ہوئے ہیں لیکن امت مسلمہ کا یہ صاحب اقتدار طبقہ کے کانوں میں جوں تک نہیں رینگی، انہیں خون میں لت پت زخم سے چور لاشیں دکھائی نہیں دے رہیں، ان کے ہاتھ شل ہو چکے، ان کے قدم جامد ہو گئے ہیں، یا پھر شاید ان کے ہتھیار زنگ آلود ہونے کی وجہ سے یہ خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔ کچھ بھی ہو بہر حال اس وقت سب سے بڑی آزمائش اس طبقے کی ہے کہ وہ اس وقت اپنے فرائض کا ادراک کرتے ہوئے کیا علمی اقدامات کرے گا یا پھر اسی گونگا بہرہ اور اندھا بن کر غفلت کی چادر تانے اپنی عیاش زندگی میں مست رہے گا؟
ہمیں تو ان سے یہی توقع ہے بس اللہ تعالٰی سے ہی عرض کرتے ہیں کہ آپ ہی غیبی خزانوں سے مدد فرما کر مظلوموں کی داد رسی کر دیجیے اور انہیں مقاصد میں کامیابی سے ہمکنار فرما دیجئے کیونکہ ہمارے حکمران نا مرد اور ان کے ہتھیار نام و نمود کے سوا کچھ نہیں۔