مشہور سیرت نگار، مؤرخ اور ہندوستانی اسکالر پروفیسر ڈاکٹر محمد یاسین مظہر صدیقی ندوی ہندوستان کے نام وَر مسلم اسکالر، مشہور سیرت نگار اور مؤرخ تھے جنھوں نے تصنیف و تالیف کردہ کئی کتابیں یادگار چھوڑی ہیں۔
26 دسمبر 1944ء کو پیدا ہونے والے پروفیسر مظہر صدیقی کا تعلق برطانوی ہند کی ریاست اتر پردیش کے ضلع لکھیم پور سے تھا۔ ابتدائی تعلیم اپنے وطن میں حاصل کی، بعد ازاں روایتی دینی تعلیم کے لیے لکھنؤ کے دار العلوم ندوۃُ العلماء میں داخلہ لیا اور 1959ء میں وہاں سے اسناد حاصل کرنے کے بعد مدارجِ تعلیمی طے کرتے ہوئے یونیورسٹی سے 1965ء میں بی- اے اور 1966ء میں بی-ایڈ کی ڈگری حاصل کی۔
بعد ازاں انھوں نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں داخلہ لیا جہاں سے 1968ء میں ایم-اے تاریخ، 1969ء میں ایم-فل اور 1975ء میں تاریخ ہی کے مضمون میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ ان ادوار میں مرحوم نے اپنے جن اساتذہ سے فیض پایا ان میں ہندوستان کی نابغہ روزگار ہستیاں شامل ہیں۔
ڈاکٹر یاسین مظہر صدیقی کے تدریسی سفر کا آغاز سن 1970ء سے شروع ہوا۔ وہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے شعبہ تاریخ میں بطور ریسرچ اسسٹنٹ تعینات ہوئے۔ 1977ء میں ان کا تقرر اسی شعبہ میں بطور لیکچرار ہوگیا۔ بعد میں "ادارہ علوم اسلامیہ” پہنچے اور 1991ء میں پروفیسر بنائے گئے۔ 1997ء سے 2000ء تک بطور ڈائریکٹر ادارہ علومِ اسلامیہ فرائض سر انجام دیے اور 2006ء میں سبک دوش ہوئے۔
انھوں نے اسلامی تاریخ اور سیرت پر درجنوں کتابیں اور مضامین و مقالات لکھے۔ سیرت کے بہت سے اہم گوشوں پر ان کی تحقیقات قابلِ قدر ہیں۔ موجودہ دور میں سیرت اور علومِ سیرت کے موضوع پر انھیں اتھارٹی سمجھا جاتا تھا۔ مرحوم کی چند تصانیف میں نبی اکرم اور خواتین ایک سماجی مطالعہ، عہد نبوی کا نظام حکومت، بنو ہاشم اور بنو امیہ کے معاشرتی تعلقات، مصادرِ سیرت النبی، حضرت شاہ ولی اللہ دہلوی، شخصیت و حکمت کا ایک تعارف، شاہ ولی ﷲ محدث دہلوی، سر سید اور علو م اسلامیہ شامل ہیں۔
عالم باعمل، محقق، مورخ اور سیرت نگار پروفیسر ڈاکٹر محمد یاسین مظہر صدیقی ندوی نے بھی مختصر علالت کے بعد 15ستمبر2020ء کو داعیِ اجل کو لبیک کہا اور اس جہانِ آب وگِل کو الوداع کہہ کر اپنے ”رفیق ِ اعلیٰ“ سے جاملے۔