کراچی (الرٹ نیوز): کراچی پورٹ ٹرسٹ میں اربوں روپے کی کرپشن پر ایف آئی اے اور قومی احتساب بیورو(نیب) میں تفتیش سست روی کاشکار ہے۔
کراچی پورٹ ٹرسٹ کے اطراف اور اندرونی زمین کو کوڑیوں کے مول لیز پر منتقل کیا گیا، اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کی مدد سے لیبر سوسائٹی، منوڑہ اور سکندر آباد کی زمینوں پر ملی بھگت سے قبضہ مافیا کو چائنا کٹنگ کا موقع فراہم کیا گیا۔
کے پی ٹی کے اعلیٰ افسران کے ساتھ مزدور یونین کے رہنماوں کو سرکاری گاڑیوں سے نوازا گیا، انجینئرنگ ڈپارٹمنٹ میں من پسند ٹھیکداروں کو ٹھیکے دئیے گئے۔
سابق وفاقی وزیر پورٹس اینڈ شپنگ بابر غوری کو بیرون ملک سے پاکستان لانے کے لئے بھی کوئی اقدامات نہیں کئے گئے، جبکہ کے پی ٹی کے سابق افسران بھی تاحال تحقیقات میں شامل نہیں ہوئے۔
کراچی پورٹ ٹرسٹ میں گزشتہ برسوں میں ہونے والی مالی بے ضابطگیوں اور انتظامی امور میں خلاف ضابطہ اقدامات کی نشاندہی مسلسل کی جاتی رہی ہے اور اس حوالے سے ایف آئی اے اور قومی احتساب بیورو(نیب) میں بھی متعدد شکایات درج کروائی گئیں جس پر الگ الگ تحقیقات تو شروع ہوئیں لیکن تحقیقات شروع ہوتے ہی سست روی کا شکار ہوگئیں۔
ذرائع نے بتایا کہ کراچی پورٹ ٹرسٹ میں کرپشن کی بڑی شکایات میں ایک شکایت زمینوں پر قبضے سے متعلق بھی ہے اور کے پی ٹی کے اندر اور باہر کی زمینوں کو کوڑیوں کے مول لیز پر دیا گیا۔
ذرائع نے بتایا کہ کراچی پورٹ ٹرسٹ کے اطراف کی زمینوں کی حفاظت کی ذمہ داری کے پی ٹی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کے پاس ہوتی ہے تاہم اسی شعبے کے ذمہ داروں نے منوڑہ، سکندرآباد اور دیگر زمینوں پر قبضہ مافیا کے کارندوں کو چائنا کٹنگ کا موقع فراہم کیا۔
کراچی پورٹ ٹرسٹ کی برتھوں کی دیکھ بھال کی ذمہ داری ٹریفک ڈپارٹمنٹ کی ہوتی ہے تاہم کے پی ٹی کی برتھوں پر اسی شعبے کے ذمہ داروں کی ملی بھگت سے مختلف نجی کمپنیوں کو وئیر ہاؤس بنانے دئیے گئے اور اس کے لئے بھاری رشوت وصول کی گئی جو خلاف قانون ہے کیونکہ کراچی پورٹ ٹرسٹ کے قوانین کے مطابق برتھوں پر سامان منتقل کرنے کے فوری بعد برتھوں کو خالی کرنا ضروری ہے تاہم نجی کمپنیاں ان ویئر ہاؤس سے غیر قانونی آمدن وصول کر رہی ہیں۔
ذرائع نے بتایا کہ کراچی پورٹ ٹرسٹ پر اس وقت مجموعی طور پر 27 برتھیں موجود ہیں جس میں زیادہ تر برتھیں نجی ملکیت میں ہیں اگر پلاننگ کے ساتھ یہاں برتھیں بنائی جائیں تو ان کی تعداد 100سے زائد ہوسکتی ہے۔
ذرائع نے مزید بتایا کہ کراچی پورٹ ٹرسٹ کے اعلیٰ افسران نے ملی بھگت سے پورٹ کی زمین کو ٹرمینل بنانے کے لئے کم نرخوں پر لیز منتقل کی جس سے قومی خزانے کو اربوں روپے کا نقصان ہوا اور جب کہ اسی طرح پورٹ گرینڈ کی زمین کو بھی کم نرخ پر لیز کو ایک نجی کمپنی کے حوالے کیا گیا جس نے خلاف ضابطہ دوسری کمپنی کو یہ ہی زمین کرائے پر منتقل کردی اور گزشتہ 9 برس سے کراچی پورٹ ٹرسٹ کے بجائے وہ ہی کمپنی یہ کرایہ وصول کر رہی ہے۔
ذرائع نے بتایا کہ کراچی پورٹ ٹرسٹ کے چیئرمین کے گھر خلاف ضابطہ 11 گاڑیاں زیرِاستعمال ہیں جبکہ گریڈ 19 سے گریڈ 17 تک کے افسران کے پاس بھی 4 سے 6 گاڑیاں ہیں اور ساتھ ساتھ اپنے خلاف آواز نہ اٹھانے پر رشوت کے طور پر کراچی پورٹ ٹرسٹ کی مزدور یونین سی بی اے کو بھی 17 گاڑیوں سے نوازا گیا ہے اور ان تمام گاڑیوں کی مینٹینس، پیٹرول اور ڈرائیوروں کو تنخواہ کی مد میں کراچی پورٹ ٹرسٹ ماہانہ کروڑوں روپے خرچ کررہی ہے۔
ذرائع نے بتایا کہ کراچی پورٹ ٹرسٹ کے انجینئرنگ ڈپارٹمنٹ میں کروڑوں روپے کے ٹھیکے من پسند ٹھیکداروں کے حوالے کئے گئے اور یہ ٹھیکے ڈمی کمپنیوں کو دئیے گئے اور ان میں اکثر کمپنیاں کراچی پورٹ ٹرسٹ کے اعلیٰ افسران کے قریبی عزیز کے نام پر قائم ہیں۔
ذرائع نے مزید بتایا کہ کراچی پورٹ ٹرسٹ کی ٹیگ بوٹس، سیلنگ بوٹس، پائلٹ بوٹس اور دیگر چھوٹی بوٹس کو اسکریپ کر کے ان کے لئے پرائیوٹ ٹھیکداروں کا بندوبست کیا گیا جس سے قومی خزانے کو کروڑوں کا نقصان اٹھانا پڑا جبکہ بندرگاہوں پر جہاز لنگر انداز ہونے کے دوران کراچی پورٹ ٹرسٹ کے ڈی سی ڈپارٹمنٹ کی جانب سے پہلے داخلے پر جہاز کے عملے سے رشوت وصول کی گئی اور اب متعدد شکایتوں کو بھی باربار نظر انداز کیا جارہا ہے۔
ذرائع کے مطابق قومی احتساب بیورو (نیب) اور ایف آئی اے کے اینٹی کرپشن سرکل اور کارپوریٹ کرائم سرکل میں شروع ہونی والی انکوائریوں پر تفتیشی افسران کارروائی کرنے کے بجائے ان فائلوں پر کارروائی سے گریزاں ہیں۔