کراچی : وفاقی شرعی کورٹ نے RTI درخواست پر تمام تر تفصیلات مہیا کر دیں ، فراہم کردہ ریکارڈ کے مطابق وفاقی شرعی عدالت میں معزز ججز ، افسران اور ملازمین کی تعداد ، ان کے زیر استعمال گاڑیاں ، مراعات ، خالی اسامیاں ، مخصوص کوٹے کی بھرتیوں سمیت دیگر اہم ریکارڈ شامل ہے ۔
تفصیلات کے مطابق وفاقی شرعی عدالت نے شہری عامر بلوچ کی RTI درخواست پر تمام پوچھی گئی معلومات فراہم کر دی ہیں ۔ شہری نے سوال کیا تھا کہ وفاقی شرعی عدالت کے معزز ججز ، افسران اور ملازمین کی کل تعداد کتنی ہے اور ان کی کتنی اسامیاں خالی ہیں ۔
جس کے جواب میں بتایا گیا ہے کہ وفاقی شرعی عدالت میں معزز ججز ، افسران اور ملازمین کی کل بجٹڈ اسامیوں کی کل تعداد 275 ہے ۔ ان میں 254 افسران و ملازمین موجود ہیں اور 21 اسامیاں خالی ہیں ۔ ان میں 19 ملازمین کنٹریکٹ پر جب کہ 256 مستقل ملازمین ہیں ۔
وفاقی شرعی عدالت میں معزز چیف جسٹس سمیت دو ججز موجود ہیں اور معزز ججز کی 7 اسامیوں میں سے 5 اسامیاں خالی ہیں ۔ ریسرچ ایڈوائزر گریڈ 20 کی ایک ہی اسامی ہے وہ بھی خالی ہے ، ڈپٹی رجسٹرار کی 4 اسامیاں میں سے 2 خالی ہیں ۔ اسسٹنٹ رجسٹرار گریڈ 19 کی 6 اسامیوں میں سے دو خالی ہیں ۔ پرائیویٹ سیکرٹری گریڈ 18 کی 6 اسامیوں میں سے خالی ہیں ۔ سپرنٹنڈنٹ گریڈ 18 کی 7 اسامیوں میں سے ایک خالی ، ریڈر گریڈ 18 کی 6 اسامیوں میں سے 2 خالی ہیں ۔ جوڈیشل اسسٹنٹ گریڈ 17 کی 6 اسامیوں سے ایک خالی اور سینیئر اسسٹنٹ گریڈ 17 کی 5 اسامیوں سے 2 خالی ہیں ۔ یعنی کہ گریڈ 17 سے گریڈ 22 تک 57 میں سے 14 اسامیاں خالی ہیں ۔
اسکیل ایک سے گریڈ 16 میں کی 210 میں سے 2 اسامیاں خالی ہیں ۔جب کہ ان میں 19 ملازمیں مستقل کے بجائے کنٹریکٹ پر بھرتی ہیں ۔ اس کے علاوہ وفاقی شرعی عدالت نے کانٹیجنسی اور کنٹریکٹ پر 8 افراد بھرتی کیئے ہوئے ہیں ۔ 2017 سے اب تک عارضی بنیادوں پر 19 افراد بھرتی کر رکھے ہیں ۔
وفاقی شرعی عدالت کے معزز چیف جسٹس کے پاس 1800 سی سی کی دو گاڑیاں ، باقی ججز کے پاس ایک ایک گاڑی 1800 سی سی ، رجسٹرار کے پاس 1340 سی سی گاڑی اور 4 مذید 1800 سی سی گاڑیاں معزز ججز کے پول میں شامل ہیں ۔ کوئٹہ رجسٹری میں دو گاڑیاں جب کہ کراچی اور پشاور رجسٹری میں ایک ایک گاڑی ہے ۔ جب کہ کراچی ، لاہور ، پشاور ، کوئٹہ رجسٹری میں 1 ایک اور اسلام آباد میں 2 موٹر سائیکل موجود ہیں ۔ وفاقی شرعی عدالت نے 2013 سے 2022 تک 15 گاڑیاں اور 3 موٹر سائیکل خریدے ہیں ۔ جب کہ اس دوران 9 گاڑیاں نیلام بھی کی ہیں اور 5 گاڑیاں ناکارہ بھی ہوئی ہیں ۔
وفاقی شرعی عدالت کی جانب سے 2013 سے 2022 تک وفاقی شرعی عدالتوں کی بلڈنگز ، دفاتر اور ججز ریسٹ ہائوسز کی ریپئر مینٹیننس کے لئے کئے جانے والے اخراجات بھی واضح کیئے گئے ہیں جن میں 14-2013 میں 550۔10 ملین روپے ، 15-2014 میں 550۔11 ملین روپے ، 16-2015 میں 880۔11 ملین روپے اور 17-2016 میں 080۔3 ملین روپے اور 18-2017 سے 20-2019 میں ۔100۔3 ملین روپے اور 21-2020 کے علاوہ 22-2021 میں 325.2 ملین روپے خرچ کئے گئے ہیں ۔
واضح رہے کہ معلومات تک رسائی کے اس قانون کے تحت وفاق کے علاوہ سندھ ، پنجاب اور خیبر پختون خواہ میں کمیشن قائم ہیں جب کہ بلوچستان میں کمیشن تاحال قائم نہیں کیا گیا ہے اور اس جس کے لئے مذکورہ شہری عامر بلوچ نے باقاعدہ بلوچستان ہائی کورٹ میں آئینی درخواست بھی کر رکھی ہے ۔ اس کے علاوہ سندھ ہائی کورٹ سے بھی معومات تک رسائی کے صوبائی ایکٹ کے تحت معلومات مانگی ہیں تاہم ابھی تک سندھ ہائی کورٹ کی جانب سے انہیں معلومات مہیا نہیں کی گئی ہیں ۔