کراچی : مردہ شخص کے نام پر رجسٹرڈ کمپنی Z.A Impex کے ذریعے قومی خزانے کو 44 ارب 50 کروڑ روپے سے زائد کا نقصان پہنچانے کی کوشش کی جارہی ہے ۔ جس پر انٹیلی جنس اینڈ انوسٹی گیشن اَن لینڈ ریونیو FBR نے 19 مئی 2023 کو مقدمہ الزام نمبر 1/2023 درج کیا تھا ۔
تفصیلات کے مطابق ایف بی آر کی تاریخ کا انوکھا واقعہ سامنے آیا ہے جس میں ایک مردہ شخص کی بند کمپنی کے نام پر قومی خزانے کا ٹیکس چوری کر کے 68 ارب 77 کروڑ 14 لاکھ 51 ہزار 951 روپے کا نقصان پہنچانے کی کوشش کی جا رہی تھی ۔ جس کو ایف بی آر کے انٹرنل آئی ٹی سسٹم PRAL کے ذریعے پکڑ لیا گیا ہے ۔
مقدمہ درج کرنے کے بعد تفتیشی افسر اسسٹنٹ ڈائریکٹر عبدالجلیل خان نے ناقص تحقیقات شروع کر دیں ، انٹیلی جنس اینڈ انوسٹی گیشن اَن لینڈ ریونیو FBR افسران نے ٹیکس چوری کی سہولت کاری کرنا شروع کر دی تھی ، جس کا بھانڈا حتمی چالان جمع کرانے کے بعد پھوٹا ہے ۔
Z.A IMPEX نامی کمپنی 2003 میں غلام نبی کے نام پر رجسٹرڈ ہوئی تھی ، جس میں 2007 کے ٹیکس ریکارڈ کیمطابق کمپنی ٹیکسٹائل کیلئے قائم کی گئی تھی ۔ جولائی 2006 سے جون 2022 تک کمپنی مکمل بند رہی ، بعد ازاں 2022 میں کمپنی کا کاروبار ایک دم پھر شروع ہوا جو صرف کاغذات میں دیکھایا گیا تھا جس کا زمین پر کوئی وجود نہیں تھا ۔ جس کو فیصل آباد کے بجائے اب کی بار CTO کراچی میں ظاہر کیا گیا تھا ۔
جس کے لئے ڈیرہ مراد جمالی UBL برانچ اور گذری کراچی UBL برانچز میں سیلز ٹیکس ریٹرن پروفائل جنریٹ کی گئی ہیں ۔ اس عرصہ یعنی جولائی ، اگست اور ستمبر 2022 میں اچانک 3 بڑی خریداریاں کمپنی کی جانب سے کی گئیں ، جن میں پہلی خریداری 16 لاکھ 30 ہزار 640 روپے ، دوسری خریداری 11 کروڑ 57 لاکھ 91 ہزار 420 روپے اور تیسری خریداری 40 کروڑ 89 لاکھ 92 ہزار 112 روپے کی خریداری ظاہر کی گئی ۔
جس کے بعد ستمبر میں FBR کے افسران نے Z.A IMPEX کمپنی کا معائنہ کیا ، معائنہ میں کمپنی بند پائی گئی اور مالک کا کوئی نام و نشان نہیں ملا جب کہ پڑوسیوں نے بھی بتایا کہ اس جگہ پر ایسی کوئی کمپنی نہیں تھی اور نہ ہی وہاں پر کوئی غلام عمر نامی بندے کو جانتا تھا ۔ جس کے بعد CTO کراچی کے افسران نے کمپنی کی سیلز ٹیکس رجسٹریشن 12 مئی 2023 کو معطل کر دی تھی ۔
15 مارچ 2023 ، 4 مئی 2023 اور 16 مئی 2023 کو 68 ارب 77 کروڑ 14 لاکھ 51 ہزار 951 روپے کی خریداریاں کی گئیں ، جس کا ٹیکس 11 ارب 68 کروڑ سے زائد PRAL پر جنریٹ ہوا ، انوسٹی گیشن افسر عبدالجیل نے PRAL کے ذریعے آٹو میٹک سسٹم کے ذریعے سامنے آنے والی 40 کمپنیوں کی سہولت کاری کرنا شروع کر دی تھی ۔ جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ان 40 میں سے 37 کمپنیوں کی لسٹ براہ راست چلان میں شامل کرنے کے بجائے کے بجائے حتمی چالان کے ساتھ نتھی کر دی گئی ۔ ان چالیس سے بھی مذید 3 بڑی کمپنیاں بچا کر قومی خزانے کو 44 ارب روپے سے زائد کا نقصان دیا گیا ہے ۔ جب کہ PRAL کی مذید کالی بھیڑوں پر ہاتھ نہیں ڈالا گیا ۔
جن تین کمپنیوں کو چھوڑ دیا گیا ہے ان میں سلیم انٹرنیشنل نے 1 ارب 22 کروڑ 79 لکھ 88 ہزار 167 روپے کی فیک خریداری ظاہر کی جس کا سیلز ٹیکس سلیم انٹرنیشنل کا 22 کروڑ 10 لاکھ 37 ہزار 870 روپے بنتا ہے ۔ بشیر امپیکس نے 1 ارب 24 کروڑ 31 لاکھ 10 ہزار کی فیک خریداری کی ، جس کا 21 کروڑ 13 لاکھ 28 ہزار 700 روپے سیلز ٹیکس بنتا ہے ۔عائشہ امپیکس نے 1 ارب 24 کروڑ 31 لاکھ 10 ہزار روپے کی فیک خریداری کی
جس کا 21 کروڑ 13 لاکھ 28 ہزار 700 روپے کا سیلز ٹیکس بنتا ہے ۔
محمد عابد چوہدری نے 44 ارب 50 کروڑ 78 لاکھ 1 ہزار 998 روپے کی خریداری کی ، محمد عابد چوہدری کی خریداری کا سیلز ٹیکس 7 ارب 56 کروڑ 63 لاکھ 26 ہزار 340 روپے بنتا ہے ۔ محمد عابد چوہدری کا نام بھی ملزمان کی لسٹ میں شامل نہیں کیا گیا ہے ۔ ایف آئی آر ہونے کے باوجود ایف بی آر نے تاج انڈسٹریز کا ایکٹیو ہی رکھا ہے ۔
واضح رہے کہ قومی خزانے کو نقصان دینے والوں میں ڈی جی آئی اینڈ آئی ان لینڈ ریونیو اسلام آباد عقیل احمد صدیقی ، گزشتہ 13 برس سے ایک ہی سیٹ پر براجمان اسسٹنٹ ڈائریکٹر محمد اعظم نفیس ، ڈائریکٹر انٹیلی جنس اینڈ انوسٹی گیشن آئی آر کراچی ڈاکٹر طارق غنی ، اسسٹنٹ ڈائریکٹر آئی اینڈ آئی آئی آر کراچی عبدالجلیل خان اور اسسٹنٹ ڈائریکٹر ایم آئی ایس ، آئی اینڈ آئی ، آئی آر محمد شاہ سمیت ڈپٹی ڈائریکٹر آئی اینڈ آئی ، آئی آر کراچی محمد جنید شامل ہیں ۔
حیران کن امر یہ ہے کہ FBR انہتائی اہم کیس میں قومی خزانے کو فائدہ پہنچانے میں یکسر ناکام رہا ہے جب کہ اس انتہائی اہم کیس کی کنٹراونشن رپورٹ تک جمع نہیں کرائی جا سکی ہے ۔
مذکورہ رپورٹ کے حوالے سے ڈی جی آئی اینڈ آئی ان لینڈ ریونیو اسلام آباد عقیل احمد صدیقی کے نام ایک تفصیلی آر ٹی آئی فائل کر دی ہے جس کا جواب موصول ہونے پر شائع کر دیا جائے گا اور مذید تفصیلات اگلی رپورٹ میں شائع کی جائیں گئی ۔