پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک میں جب کوئی نوجوان نئی سوچ، نیا جذبہ اور کوئی انوکھا آئیڈیا لے کر میدان میں آتا ہے تو اس کی راہ میں خوش آئند ماحول کم اور رکاوٹیں زیادہ ملتی ہیں۔ "اس ملک میں یہ نہیں چلے گا” جیسا جملہ گویا قومی پالیسی کا درجہ اختیار کر چکا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بے شمار دیسی اسٹارٹ اپس شروع ہونے سے پہلے یا ابتدائی مراحل ہی میں دم توڑ دیتے ہیں۔
یہ تحریر اُن تمام وجوہات کا تجزیہ پیش کرتی ہے جن کی وجہ سے پاکستانی اسٹارٹ اپس کا قتل عام ہو رہا ہے، اور ساتھ ہی اس نظام کی کوتاہیوں کی نشاندہی کرتی ہے جو نوجوانوں کے جوش و جذبے کو دفن کرنے میں سرگرم ہے۔
آئیڈیاز تو ہیں، مگر نظام رکاوٹ ہے
پاکستانی نوجوانوں کے پاس تخلیقی آئیڈیاز کی کمی نہیں۔ کسی کے ذہن میں “Uber for Rickshaws” جیسا تصور ہوتا ہے، تو کوئی "Farm-to-Table” پلیٹ فارم بنانے کے خواب دیکھتا ہے۔ مگر جیسے ہی وہ اس آئیڈیا کو عملی شکل دینے کا آغاز کرتا ہے، سسٹم کی دیواریں آڑے آ جاتی ہیں:
- ناقص حکومتی پالیسیز
- ریگولیٹری جھنجھٹ
- لائسنسنگ میں تاخیر
- ٹیکس قوانین کی غیر یقینی صورتحال
یہ سب عوامل ایک ایسا ماحول پیدا کرتے ہیں جہاں آئیڈیا کی عمر صرف presentation slides تک محدود رہتی ہے۔
سرمایہ کاری یا خاندانی امداد؟
دنیا بھر میں اسٹارٹ اپس کو وینچر کیپٹلسٹ، اینجل انویسٹرز یا گورنمنٹ گرانٹس کی سہولت حاصل ہوتی ہے۔ مگر پاکستان میں صورتحال برعکس ہے:
- سرمایہ کار صرف "سیف زون” میں پیسے لگاتے ہیں — جیسے رئیل اسٹیٹ یا import-export
- کسی نئے آئیڈیا کو صرف اس لیے مسترد کر دیا جاتا ہے کہ "پہلے کسی نے نہیں کیا”
- نوجوان کو یا تو خاندانی پیسے سے کام شروع کرنا پڑتا ہے، یا قرض میں ڈوبنا پڑتا ہے
نتیجہ: معاشی دباؤ کی وجہ سے اکثر اسٹارٹ اپس پہلے سال میں ہی بند ہو جاتے ہیں۔
سوشل فیبرک میں شکوک اور طنز
پاکستانی معاشرہ کسی بھی نوجوان کی جدت کو پذیرائی دینے کے بجائے اس پر طنز کرتا ہے:
- "نوکری نہیں ملی تو یہ اسٹارٹ اپ اسٹارٹ اپ کھیل رہا ہے؟”
- "یہ تو صرف فیس بک پیج بنایا ہے، بزنس کہاں ہے؟”
- "اتنی پڑھائی کی اور اب آن لائن کھانے بیچ رہا ہے؟”
یہ ذہنی ماحول اُس نوجوان کے حوصلے کو مایوسی میں بدل دیتا ہے، جس نے محض خواب نہیں دیکھا، بلکہ اسے عملی شکل بھی دینا چاہی۔
اداروں کا کردار — دوست یا دشمن؟
جب کوئی اسٹارٹ اپ اداروں کے دروازے کھٹکھٹاتا ہے، جیسے:
- ایس ای سی پی (SECP)
- ایف بی آر (FBR)
- بینک
تو ان سے تعاون کے بجائے سوالات، مشکوک نظریں اور تاخیری حربے ملتے ہیں۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ نوجوان یا تو "کالے دھن” کی طرف جاتا ہے، یا سب کچھ چھوڑ کر ملک سے باہر جانے کی تیاری کرتا ہے۔
حل کیا ہے؟
- One-Window Startup Portal: تمام ریجسٹریشن، لائسنسنگ اور ٹیکس سسٹمز کو ایک پلیٹ فارم پر لایا جائے۔
- Youth Startup Fund: حکومت ہر سال نئے اسٹارٹ اپس کے لیے ایک مخصوص بجٹ مختص کرے، بغیر کسی سیاسی مداخلت کے۔
- Mentorship Hubs: ہر یونیورسٹی میں تجربہ کار کاروباری افراد اور نوجوانوں کے درمیان mentorship hubs قائم کیے جائیں۔
- Corporate Incubation: بڑی کمپنیاں اپنے CSR کے تحت نوجوان اسٹارٹ اپس کو guidance اور space فراہم کریں۔
- Narrative’s Exchange: سوشل میڈیا، ٹی وی اور یونیورسٹی سیمینارز کے ذریعے نیا بیانیہ تشکیل دیا جائے کہ "نوجوان کا آئیڈیا ہی معیشت کا انجن ہے۔”
نتیجہ:
ایک قوم جو اپنے نوجوانوں کے خوابوں پر یقین نہیں رکھتی، وہ صرف ماضی کی یادوں میں جیتی ہے۔ اگر ہم واقعی ترقی چاہتے ہیں، تو ہر نئے آئیڈیا کو "خطرہ” نہیں بلکہ "موقع” سمجھنا ہوگا۔ کیونکہ آج کا نوجوان صرف بزنس نہیں کر رہا — وہ ایک نیا پاکستان تخلیق کر رہا ہے۔
اگر ہم نے اب بھی نہ سوچا تو یہ قتل عام جاری رہے گا — خواب مرتے رہیں گے، اور ہم صرف خبریں پڑھتے رہیں گے۔