پاکستان کا نوجوان، ایک ہاتھ میں موبائل، دوسرے ہاتھ میں خواب لیے، روزانہ صبح ایک ایسے نظام کی دیوار سے ٹکرا کر واپس آتا ہے جو نہ صرف فرسودہ ہے بلکہ شعوری طور پر بدحال بھی۔ ہم اس نوجوان کو تبدیلی کی علامت تو قرار دیتے ہیں، لیکن جب وہ سوال کرتا ہے، تنقید کرتا ہے، یا کچھ نیا سوچتا ہے — تو پورا نظام اسے "بدتمیز”، "ناشکرا”، یا "ناتجربہ کار” کہہ کر خاموش کرا دیتا ہے۔ یہی وہ تنازع ہے جسے ہم نے کبھی سنجیدگی سے سمجھنے کی کوشش ہی نہیں کی۔
نوجوان کا ذہن: انٹرنیٹ کی کھڑکی سے باہر جھانکتی ہوئی آنکھیں
آج کا نوجوان صرف مقامی خبروں یا اسکول کی نصابی کتابوں تک محدود نہیں۔ وہ YouTube پر ترکی کی معیشت دیکھتا ہے، Reddit پر جرمن حکومت کی پالیسیوں پر بحث کرتا ہے، اور Twitter پر امریکہ میں ہونے والے مظاہروں کا تجزیہ کرتا ہے۔ وہ جانتا ہے کہ ترقی کیا ہوتی ہے، انصاف کیسے ملتا ہے، اور اقوام کیسے اپنے نوجوانوں کی قدر کرتی ہیں۔
لیکن جب وہ واپس اپنے ملک کے سسٹم کو دیکھتا ہے — تو اسے اسکولوں میں رٹے کی معیشت، یونیورسٹیوں میں سفارش کی جمہوریت، نوکریوں میں رشوت کی میرٹ، اور عدالتوں میں تاریخ پر تاریخ نظر آتی ہے۔ کیا اسے حق نہیں کہ وہ سوال کرے؟ کیا یہ جرم ہے کہ وہ کسی بہتر مستقبل کا خواب دیکھے؟
نظامِ کہنہ: جس نے ترقی کو فائلوں میں دفن کر رکھا ہے
ہم جس نظام میں جی رہے ہیں، وہ 1980 کی سوچ پر آج بھی اکڑ کر کھڑا ہے۔ سرکاری دفتروں میں آج بھی ہاتھ سے لکھے نوٹوں پر فیصلے ہوتے ہیں۔ یونیورسٹیوں میں آج بھی وہی نصاب پڑھایا جا رہا ہے جو 20 سال پہلے ناقابلِ عمل تھا۔ سیاست آج بھی جاگیرداروں، صنعتکاروں اور نسل در نسل اقتدار کے پجاریوں کے گرد گھوم رہی ہے۔ نوجوان؟ وہ صرف نعرے مارنے، بینرز اٹھانے، یا سوشل میڈیا پر پوسٹ کرنے کے لیے ہے۔
جدید سوچ پر پرانے فتوے
ہر بار جب نوجوان کوئی نیا آئیڈیا لاتا ہے — کوئی ایپ، کوئی اسٹارٹ اپ، یا کوئی تحقیقی تجویز — تو اسے کہا جاتا ہے:
-
"یہ پاکستان میں نہیں چلے گا”
-
"یہ مغربی سوچ ہے”
-
"تم ابھی بچے ہو، دنیا نہیں دیکھی”
یہی وہ سوچ ہے جو صرف جسمانی نہیں، ذہنی غلامی بھی پیدا کرتی ہے۔
عوامی انقلاب؟ یا انفرادی مایوسی؟
کیا ہمارا نوجوان واقعی انقلاب لانا چاہتا ہے؟ یا وہ صرف روزگار، عزت، اور شناخت مانگ رہا ہے؟ جب اسے مسلسل نظرانداز کیا جاتا ہے، تو وہ یا تو ملک چھوڑ دیتا ہے، یا خود کو ایک کمرے میں قید کر کے صرف memes، گیمنگ اور scroll پر زندگی گزارنے لگتا ہے۔
یہ تباہی صرف انفرادی نہیں، اجتماعی ہے — کیونکہ جب ایک قوم کا نوجوان خاموش ہو جائے، تو سمجھ لو وہ قوم مرنے کے قریب ہے۔
اب کیا کیا جائے؟
-
یونیورسٹی سسٹمز کو جدید بنانے کی ضرورت ہے۔ تعلیمی اداروں کو سوچ کی آزادی دینی ہوگی۔
-
نوجوانوں کو فیصلہ سازی میں شامل کرنا ہوگا۔ صرف "یوتھ سیمینار” سے کچھ نہیں ہوتا — اصل اختیار دو۔
-
ڈیجیٹل پلیٹ فارمز کا استعمال پالیسی سازی میں ہونا چاہیے۔ نوجوان جہاں ہیں، وہیں انہیں سنا جائے۔
-
روایتی بیانیے کو چیلنج کرنے کی گنجائش ہونی چاہیے۔ سوال اٹھانے والا غدار نہیں، مخلص ہوتا ہے۔
نتیجہ: انقلاب گلیوں میں نہیں، ذہنوں میں ہوتا ہے
انقلاب کوئی خونریزی نہیں، یہ سوچ کی تبدیلی ہے۔ اور جب نوجوان کی سوچ کو قید کر دیا جائے، تو اصل خطرہ صرف بغاوت کا نہیں، اجتماعی پستی کا ہوتا ہے۔
اگر ریاست، تعلیمی ادارے، اور معززینِ وقت نے یہ نہ سمجھا کہ آج کا نوجوان صرف سستا ڈیٹا اور وائی فائی نہیں، شناخت، مقام، اور وقار مانگتا ہے — تو کل وہ تمہارے ماضی کے مجسمے گرا کر اپنا مستقبل خود تراشے گا۔ اور وہ دن دور نہیں۔