جمعہ, دسمبر 13, 2024

آئینی ترمیم اور سود کا خاتمہ

محترم جناب آصف محمود صاحب کا ایک مضمون "آئینی ترمیم اور سود: حقیقت کیا ہے؟” سوشل میڈیا پر گردش کر رہا ہے جس میں سودی نظام کے حوالے سے حال ہی میں ہونے والی آئینی ترمیم کی افادیت کو کمزور ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔اس حوالے سے انہوں نے کچھ اہم نکات اٹھائے ہیں جن میں یہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ اس ترمیم کا کوئی فائدہ نہیں اور مولانا فضل الرحمن نے اپنے کارکنوں کو مطمئن کرنے کے لئے اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھوئے ہیں لیکن اس کے جواب میں بعض اہم نکات ہیں جو اس بحث میں نظرانداز کیے گئے ہیں۔ یہاں چند اہم پہلوؤں کو مدنظر رکھنے کی ضرورت ہے۔

1. آئینی ترمیم کی قانونی حیثیت

آصف محمود صاحب کا دعویٰ ہے کہ باب نمبر 2 کا حصہ جس میں سود کے خاتمے کی بات کی گئی ہے، غیر اہم ہے کیونکہ یہ آئین کا لازمی حصہ نہیں اور اس پر عمل درآمد ضروری نہیں۔ یہ دعویٰ بنیادی طور پر ایک مغالطہ ہے۔ آئینی ترمیم کا مطلب ہے کہ ریاست نے ایک قانونی ذمہ داری قبول کی ہے۔ یہ درست ہے کہ باب نمبر 2 کی کچھ شقوں پر عمل درآمد کی قانونی پابندی نہیں ہوتی، لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ ان پر عمل درآمد نہیں ہو سکتا یا نہیں ہونا چاہیے۔ اس طرح کی ترمیمات عوامی پالیسیوں کی تشکیل میں اہم کردار ادا کرتی ہیں اور حکومت کو ایک راہ دکھاتی ہیں کہ کس سمت میں آگے بڑھنا ہے۔اور بوقت ضرورت ان پر ایسے انداز میں عمل ہوتا ہے کہ جو سب کو حیران کر دیتا ہے ۔

2. سود کا مکمل خاتمہ ضروری لیکن تدریجا

مضمون میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ سود کے خاتمے کی شق پہلی بار نہیں آئی بلکہ پہلے سے موجود ہے۔ اس بات کو تسلیم کرتے ہوئے، یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ کسی بھی قانونی اور مالیاتی نظام میں تبدیلی ایک تدریجی عمل ہوتا ہے۔ بدقسمتی سے سود ایک ایسا نظام ہے جو صدیوں سے معیشت کا حصہ رہا ہے اور اس کا خاتمہ فوری الہ دین کے چراغ کے ذریعے نہیں ہو سکتا۔ 2028ء تک سود کے خاتمے کا ہدف اس بات کی علامت ہے کہ حکومت نے اسے سنجیدگی سے لینے کا عندیہ دیا ہے اور اس کے لئے ایک قابلِ عمل وقت مقرر کیا ہے۔پہلے آئین میں اس کے خاتمے کے لئے کسی وقت کی تحدید نہیں تھی ۔

3. آئینی عمل کی اہمیت

محترم آصف محمود صاحب نے یہ بھی کہا ہے کہ آئینی شقوں پر عمل نہ ہونے کی صورت میں کوئی قانونی چارہ جوئی ممکن نہیں۔ یہ نکتہ بھی درست نہیں ہے۔ آئین میں شامل اصولوں اور شقوں پر عمل درآمد کا انحصار معروضی حالات، عدالتی تفاسیر اور سیاسی قوت ارادی پر ہوتا ہے۔ اگرچہ باب نمبر 2 کے اصولوں پر براہِ راست قانونی چارہ جوئی ممکن نہیں، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ حکومت ان پر عمل نہ کرے۔ حکومت کی پالیسی سازی میں ان اصولوں کا اہم کردار ہوتا ہے اور آئندہ مالیاتی اصلاحات کے دوران ان پر عمل درآمد کا امکان بہر صورت موجود ہوتا ہے۔

4. سیاسی عزم کی ضرورت

مضمون نگار نے مولانا فضل الرحمن کے کردار پر بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس ترمیم کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس طرح کی ترمیمات سیاسی عزم اور عوامی حمایت کی علامت ہوتی ہیں۔ مولانا فضل الرحمن اور دیگر علماء نے سود کے خاتمے کے لئے جو کوششیں کی ہیں وہ آئینی عمل کو مضبوط بناتی ہیں اور یہ اس بات کا ثبوت ہیں کہ سود کے خاتمے کی تحریک کو ایک نیا عزم ملا ہے۔

آصف محمود صاحب کے مضمون میں بعض حقائق کی درست عکاسی کی گئی ہے، لیکن کچھ اہم پہلوؤں کو نظرانداز بھی کیا گیا ہے۔ آئینی ترمیم ایک اہم قدم ہے جو سود کے خاتمے کی جانب بڑھ رہا ہے۔ قانونی اصلاحات اور سیاسی عزم کے بغیر کوئی بھی بڑا معاشی یا سماجی نظام تبدیل نہیں ہو سکتا۔ اس ترمیم کے ذریعے عوامی سطح پر آگاہی بڑھانا اور حکومت کو ایک مضبوط پالیسی تیار کرنے کے لیے مجبور کرنا ایک بڑی کامیابی ہو سکتی ہے۔

رہی بات 2028 تک مہلت کی تو یہ وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے کو ہی ترمیم کا حصہ بنایا گیا ہے جس میں عدالت نے حکومت کو 31 دسمبر 2027 تک سودی نظام کے مکمل خاتمے کے لیے مہلت دی تھی اسی کو آئین کا حصہ بنایا گیا ہے ،باقی جمع خاطر رکھنا چاہیے جنہیں آئینی ترمیم میں اس حوالے سے شقیں شامل کروانا آتی ہیں انہیں عملدرآمد کروانا بھی آتا ہے یہ وقت اس منجھن کے بیچنے کا نہیں۔
بہت شکریہ

متعلقہ خبریں

مقبول ترین

متعلقہ خبریں